جمہوریت اور جمہوری رویہ۔۔۔۔

جمہوریت صرف نام لینے اور جمہوری کہلوانے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک رویے اور سوچ کا نام ہے۔ اس کی بنیاد دوسروں بلکہ اکثریت کی رائے کے احترام پر ہوتی ہے بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت بھی پسند اور مرضی کی تابع سمجھی جاتی ہے یہ بات بحث طلب ہے کہ ہمارے ہاں کب حقیقی حکومت منتخب ہو کر آئی اور کون سلیکٹڈ تھا‘ کس دور میں جمہوری روایات کو اپنایا گیا اور کون سی حکومت عوام کی خدمت گار رہی ہماری سیاسی تاریخ اتنی قابل رشک نہیں‘کسی بھی ملک کی آزادی اور خودمختاری کا دارومدار اور انحصار اس کی معیشت پر ہوتا ہے‘ اگر ملک اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہے، اپنے وسائل کے ساتھ مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے تو وہ کامیاب ملک کہلاتا ہے مگر ہمارا سارا انحصار ہی غیروں پر ہے ان کی شرائط پر ہی، ان سے قرض لے کر ملک چلانے کی روش اتنی پختہ ہوچکی ہے کہ اب تو سابقہ قرض چکانے کےلئے ہر حال میں مزید اور سخت شرائط پر قرض لینا مجبوری بن چکا ہے‘ آئی ایم ایف نے دنیا کے ترقی پذیر اور غریب ممالک کو اسی طرح اپنے جال میں لے کر مرضی کے فیصلے کروانے کی ذمہ داری لی ہوئی ہے‘ اس عوام دشمن مالیاتی ادارے کی شرائط ہی عوام پر زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈالنا ہوتی ہیں پہلے تو اپنی کرنسی کی قدر کم کرکے معیشت کی تنزلی کی ابتدا کی جاتی ہے صرف اس سے ہی عوام پر مہنگائی کا اضافی بوجھ بڑھ جاتا ہے پھر اس کے بعد حکومت پر دباو¿ ڈال کر بجلی، گیس اور پٹرول مہنگا کروایا جاتا ہے اگر کوئی حکومت کسی مد میں غریب طبقے کو سبسڈی دے بھی رہی ہو تو وہ ختم کروائی جاتی ہے اس طرح غریبوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کا مضبوط بندوبست کیا جاتا ہے ۔ اب نئے قرضے کے اجرا کےلئے بجلی کے نرخوں میں اوسطاً دو روپے یونٹ اضافے کی شرط قبول کر لی گئی ہے۔ اس مجوزہ اضافے سے اندازا ً200 ارب روپے مزید عوام سے نچوڑے جائیں گے ان حالات میں جمہوری ممالک میں عوام کی نظریں اپوزیشن پر ہوتی ہیں اور اس قسم کے فیصلوں کی روک تھام کےلئے اپوزیشن حکومت کا محاسبہ کرتی ہے۔ اس کا صحیح مقام پارلیمنٹ ہوتا ہے، جہاں حکومت کو ہر حال میں جواب دینا ہوتا ہے، مگر اپوزیشن بھی قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے اور چلانے سے گریزاں ہے اگرچہ پارلیمانی سال کے ضروری ایام مکمل کرنے کے لیے ( دوسرے لفظوں میں ارکان پارلیمنٹ کی دہاڑیاں پکی کرنے کے لیے) حکومت نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلا لیا ہے، مگر تادمِ تحریر اپوزیشن اجلاس چلانے میں تعاون پر تیار نہیں‘ آئین کے تحت کسی بھی حکومت کو قبل از وقت رخصت کرنے کا واحد طریقہ تحریک عدم اعتماد ہوتا ہے، ہماری اپوزیشن موجودہ حکومت کو کسی صورت بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں، مگر اس کو ختم کرنے کےلئے آئینی طریقہ کار اختیار کرنے کی بجائے لانگ مارچ اور دھرنا دینے پر آمادہ ہے‘ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کئی ماہ سے عوام کو حکومت کے خلاف متحرک کر رہی ہے، مگر یہ سب کچھ پارلیمنٹ سے باہر ہو رہا ہے‘ گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد لا کر حکومت سے عوام کو نجات دلائیں گے، تو پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نون اور جے یو آئی ف نے اس کو ناقابل عمل قرار دے کر لانگ مارچ کے ذریعے ہی حکومت گرانے پر اصرار کیا ہے‘ اب اپوزیشن کے فیصلے پر کس کا کتنا زور ہے، یہ تو واضح نہیں، لیکن مختلف الخیال گیارہ جماعتوں کا صرف ایک بات پر اتفاق ہے کہ حکومت سے نجات حاصل کرنی ہے۔ اس کےلئے جمہوری اور آئینی طریقہ تو ایک ہی ہے، لیکن غیر آئینی طریقے اختیار کرنا اورحکومت گرانے کی خواہش بذات خود ایک غیر جمہوری رویہ ہے اب بھی اپوزیشن کوشش کرے اور پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرے تو حکومت سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے جیسے فیصلوں کو واپس کرا سکتی ہے مگر اس طرف کسی کی توجہ ہی نہیں اور یہی بات حکومت چاہتی ہے کہ اپوزیشن پارلیمنٹ میں بے شک نہ آئے اور نہ ہی حکومت کے فیصلوں میں رکاوٹ ڈالے، اس صورتحال میں عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔