تعلیمی ادارے اور کورونا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کو رونا نے اور کچھ کیا ہو یا نہ ہو تعلیم کا بیڑہ غرق کر دیا ۔ یہ ایک ایسی وبا ہے کہ جو جہاں کہیں اکٹھ دیکھتی ہے حملہ آور ہو جاتی ہے اور جہاں حملہ آور ہوتی ہے وہاں جانوں کا ضیاع لازم ہو جاتا ہے۔ کتنی ہی انسانی جانیں اس وبا کا شکار ہو چکی ہیں اور اس کے ڈر سے جو نقصانات ہوئے وہ بھی ناقابل تلافی ہیں۔جہاں تک تعلیمی اداروںکا تعلق ہے تو یہ واحد ایسی جگہ ہے کہ جہاں انسانوں کا اکٹھ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔اور یہ لوگ ہوتے بھی کم عمر ہیں کہ جن میں برداشت کامادہ کم ہوتا ہے اس لئے اگر ان پر کورونا حملہ کرے تو ان کے بچنے کی امید بہت کم ہو جاتی ہے۔ اسی لئے حکومت نے اس وبا کے آتے ہیں تعلیمی ادروںکی بندش کا حکم دیا تاکہ اس وبا کو اتنا بڑا اکٹھ نہ ملے اور انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو ۔ مگر اس سے جو نقصان تعلیم کا ہوا اس کا ازالہ تو شائد کبھی نہ ہو سکے ۔ پہلے حملے میں تو یہ ہوا کہ حکومت نے بچوں کو بغیر امتحان لئے اگلی کلاسوں میں پروموٹ کر دیا مگر دوسرے سال بھی ایسا کرنا شاید ممکن نہ تھا اس لئے فیصلہ یہ کیا گیا کہ اس دفعہ بغیر امتحان کے طلباءکو ترقی نہیں دی جائے گی۔ اس کے لئے اب سکولوں کی بندش کو ختم کرنا لازم ہے مگر خطرہ تو ابھی بھی وہی ہے کہ ابھی تک اس وباپر قابو نہیں پایا جا سکا۔ اور نہ ابھی تک کوئی ایسی دوا معلوم ہو سکی ہے کہ جو بچوں کا ا س وبا سے محفوظ رکھ سکے۔ اب اگر تعلیمی اداروں کو کھولاجاتا ہے تو پھر سے اس وبا کے پھیلاو¿ کا خطرہ اپنی جگہ ہے اور اگر نہیں کھولا جاتا تو تعلیمی ہرج تو اپنی جگہ ہے۔یعنی نہ جائے ماندن اور نہ پائے رفتن والی بات بن چکی ہے۔ اس وبا نے ہمارے طلباءکے دو قیمتی سال ضائع کر دیئے ہیں۔یعنی دو سالوں میںطلباءکچھ حاصل نہیں کر پائے اور جو بغیر امتحان کے پروموٹ ہوئے ہیں ان کی یہ کمی تو ساری تعلیمی زندگی کے دوران کبھی بھی پوری نہ ہو پائے گی۔ اس لئے کہ تعلیمی سالوں میں نصاب تو ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں کہ ایک سال اگر مس کر دیاجائے تو آگے چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ا ب ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ان بچوں کی تعلیم کا کیا حال ہو گا جو بغیر ایک نصاب پڑھے آگے پروموٹ کر دیئے گئے ہیں۔کیا ان کی یہ کمی کبھی پوری ہو پائے گی۔ ہم اپنے تجربے کی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوسکے گا۔اور چونکہ تعلیمی سال ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں کہ ایک سال جو آپ پڑھتے ہیں دوسرے سال اُسی کو آگے چلاتے ہیں۔ جب تک آپ پہلے سال کا نصاب پڑھ نہیںسکتے اگلے سال کے نصاب کو سمجھ نہیں پاتے۔ اور یہ کمی پھر ساری عمر آپ کے ساتھ رہتی ہے۔ اگر رٹا وغیر کے زور پر آپ پاس بھی ہو جاتے ہیں پھر بھی آپ کو اس کمی کا احساس ساری تعلیمی عمر میں رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ اس دوران کے طالب علموں کو اپنی ساری تعلیمی زندگی یہ کمی محسوس ہوتی رہے گی۔تا ہم قدرتی آفات کے مقابلہ کسی طرح تو کر نا ہوتا ہی ہے ہماری حکومت نے اپنی جانب سے طلباءکےلئے بہت اچھا ہی سوچا ہے اب اس سے زیادہ کوئی کر بھی کیا سکتا ہے مگر اس کے بعد کی بات اس طرح ہے کہ اس میں اساتذہ کو بھی کچھ نہ کچھ قربانی دینی پڑے گی کہ اب نصاب کا وہ حصہ کہ جو اس سال میں آ رہاہے اور اس کا تعلق پچھلے کورس کے ساتھ ہے تو اساتذہ کرام بچوں کو اسی کلاس میں اور ہو سکے تو ایکسٹر ا کلاسز میںبنیادی چیزیں سکھا دیں تو بچوں کا بھلا ہو جائے گا ۔ اس میں تھورڑی محنت تو کرنی پڑتی ہے مگر اس سے یہ ہو گا کہ بچے اس دفعہ کا سبق بہتر سیکھ پائیں گے اور ان کو سابقہ کی رکاوٹ نہیں آئے گی ورنہ ہوگا یہی کہ آپ پڑھا رہے ہوں گے اور بچے بے خبر بیٹھے ہوں گے۔ ہم یہ اپنے تجربے کی بنا پر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں دونوں طرح کے تجربے ہوئے ہیں ایک اپنے زمانہ طالب علمی میں کہ ایک جماعت چھوڑنی پڑی تھی اور ایک استاد کی حیثیت سے کہ ایک کلاس کو پڑھاتے وقت پتہ چلا کہ بچے میری بات نہیں سمجھ رہے۔ معلوم کیا تو پتہ چلاکہ انہوں نے اس مضمون کی بنیادی کتاب جوپچھلی جماعت میں تھی وہ سرے سے پڑھی ہی نہیں ہے ۔ جو میں نے ان کواضافی پیریڈ لے کر پڑھائی۔خصوصاً سائنس اور ریاضی کے مضامین میں بچو ںکو یہ تکلیف ضرور پیش آئے گی جس کے ازالے کے لئے بہر حال اساتذہ ہی ہو قربانی دینی پڑے گی اب اللہ کرے کہ یہ وبا ختم ہو جائے اور مزید نقصان نہ ہو۔