بھارت میں پچھلے چند ماہ سے کسان ایک حکومتی قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اگرچہ ان کے دارالحکومت دہلی کے داخلی راستوں پر پرامن دھرنوں کی وجہ سے دنیا میں اچھا تاثر گیا، اور اقوام متحدہ سمیت تمام اہم ممالک کی ہمدردیاں کسانوں کو حاصل ہو گئی تھیں حکومت سے مذاکرات کے دس دور ہوئے، لیکن حکومتی نمائندے احتجاج ختم کرانے میں ناکام رہے اس اعصاب شکن اور طویل تحریک کا نقطہ عروج 26 جنوری کو بھارت کے ”یوم جمہوریہ“ پر اس وقت دیکھنے کو ملا، جب کسانوں کی ٹریکٹر ریلی تمام رکاوٹیں عبور کرتی ہوئی، دہلی میں داخل ہوگئی پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج کے ذریعے کسانوں کو روکنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہی اور ہزاروں کسان، جن کی اکثریت پنجاب اور ہریانہ کے سکھوں کی ہے، لال قلعہ میں داخل ہو گئے اور لال قلعے کے گنبدوں اور میناروں پر خالصتان کے پرچم لہرا دئیے بھارت کے سب سے بڑے قومی دن پر وفاقی دارالحکومت میں اتنا شدید ہنگامہ ایک تازیانہ ہے اگرچہ یوم جمہوریہ پر احتجاج کو روکنے کے لئے مودی حکومت نے مجوزہ قانون ایک سال کے لیے موخر کرنے اور ایک مشترکہ کمیٹی بنا کر اس پر دوبارہ غور کرنے کا بھی اعلان کیا، لیکن اپنے حق کیلئے جان ہتھیلی پر رکھ کر، گھروں سے نکلے ہوئے کسانوں نے اس لولی پاپ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اگر دیکھا جائے تو بھارت اور پاکستان کے کسان ایک جیسے حالات کا شکار ہیں ملک کو روٹی روزی مہیا کرنے والا یہ طبقہ خود استحصال کا نشانہ ہے ربع صدی پہلے تک تو کسان کی صرف محنت ہی صرف ہوتی تھی بیج وہ خود تیار کرتا تھا، کھیتوں میں ہل چلاتا تھا، کھاد کےلئے جانوروں کے گوبر کواستعمال کرتا تھا مگر اب بیج سے لے کر پانی تک خریدنا پڑتا ہے، کھاد بازار سے لینا پڑتی ہے، ٹریکٹر اور مشینری بھی اپنی ہو، پھر بھی ڈیزل پر چلتی ہے اور جڑی بوٹیوں سے بچاو¿ کےلئے زہریلی ادویات کا سپرے بھی ضروری ہو گیا ہے اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسانوں کو اپنی زرعی پیداوار پر اٹھنے والا خرچہ بھی واپس نہیں ملتا گزشتہ دنوں ہمارے صوبہ سندھ میں، ٹماٹر کے کاشتکاروں نے مناسب قیمت نہ ملنے پر فصلوں کو آگ لگا دی تھی لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ عوام اور خریداروں کو سبزیاں پھل اور آٹا چاول بہت مہنگے ملتے ہیں، اس کی وجہ منڈیوں میں بیٹھا وہ آڑھتی ہے، جو سب منافع کھا جاتا ہے عجیب ستم ظریفی ہے کہ زرعی پیداوار کی قیمت اس کو اُگانے اور تیار کرنے والا طے نہیں کرتا، بلکہ منڈی میں بیٹھا مڈل مین طے کرتا ہے حالانکہ ہر طرح کی صنعتی پیداوار اور مصنوعات کی قیمت خود صنعت کار مقرر کر کے، اپنی پروڈکٹس بازار میں لاتا ہے جبکہ کسان اپنی پیداوار اٹھا کر منڈی میں لاتا ہے، اور یہ اس کا نصیب ہے کہ قیمت اچھی مل جائے اکثر دیکھا گیا ہے کہ کھیت سے منڈی تک لانے کا کرایہ ہی مل پاتا ہے، اور جنس مفت میں دے کر واپس آنا پڑتا ہے جبکہ یہی جنس مہنگے داموں دکاندار لے کر جاتا ہے جو صارف کو مزید مہنگی ملتی ہے یہ دوطرفہ لوٹ مار کا نظام ہے، ایک طرف کسان تو دوسری طرف صارف ہے درمیان میں اصل منافع خور ہیں اور یہ سب کو معلوم ہے تاہم کسانوں کے مفاد اور صارفین کے حقوق کا کبھی تحفظ نہیں ہو سکا مغرب اور چند عرب ممالک میں حکومت خود زرعی پیداوار خرید کر سستی قیمت پر صارفین کو مہیا کرتی ہیں اور یہ سبسڈی کے ذریعے کسانوں کو منافع دیا جاتا ہے ہمارے ہاں اگر کسان کے نام پر سبسڈی دی بھی جاتی ہے تو یہ کسان کی بجائے شوگر ملز اور فلور ملز مالکان اور کبھی کھاد بنانے والے کھا جاتے ہیں، کسان بیچارا محروم ہی رہتا ہے حکومت کو بھارت میں جاری کسان تحریک سے سبق حاصل کر کے ابھی سے کسان دوست پالیسیاں شروع کرنی چاہئیں ملک میں خوراک کے تحفظ اور عوام کو بھوک سے بچانے کےلئے یہ ضروری ہے کہ کسان کو اس کی محنت کا صلہ ملنے کی ضمانت دی جائے۔