پاکستان میں ارکان پارلیمنٹ کی وفاداریاں خریدنے کی تاریخ پرانی اور تلخ ہے شاید یہی وجہ ہے کہ کسی وفاقی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی البتہ مطلوبہ اکثریت سے محروم پارٹی نے دوسری پارٹیوں کے ارکان توڑ کر اپنی حکومت مستحکم کرنے کا کئی بار کامیاب تجربہ کیا اس عمل کو ”فارورڈ بلاک“ کی اصطلاح میں تحفظ دیا گیا سینیٹ کے انتخابات تو صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اورممبران قومی اسمبلی کے لیے ایک پر کشش موقع ہوتا ہے تقریبا ًہر سیاسی پارٹی کو ایسے موقع پر پارٹی ڈسپلن کی پابندی کرانا مشکل رہا ہے، اس صورتحال پر نہ تو ارکان پارلیمنٹ کبھی شرمندہ ہوئے اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے کوئی تادیبی کارروائی کی اس بار حکومت نے اس کھلے عام سودا بازی کی روک تھام کرنے کی ٹھان لی ہے اس کی پہلی کوشش ایک سادہ قانون بنا کر سینیٹ الیکشن کو اوپن کرنے کےلئے سپریم کورٹ سے رجوع تھی لیکن الیکشن کمیشن اور صوبہ سندھ نے اس کو غیر آئینی قرار دیا ہے اس حوالے سے جو بھی فیصلہ سامنے آئے گا اس کے پیش نظر حکومت نے سینیٹ کا الیکشن اوپن بیلٹ کرنے کےلئے ایک ترمیم کا مسودہ بھی تیار کرلیا گیا ہے، جو متعلقہ مجلس قائمہ سے بھی منظور کروا لیا گیا ہے لیکن دوسری طرف قومی اسمبلی میں اپوزیشن اتحاد (پی ڈی ایم )حکومت سے کسی قسم کا تعاون کرنے پر تیار نہیں، بلکہ دو دو دن کے وقفے سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں نہ صرف اپوزیشن خود شریک نہیں ہوتی، بلکہ کورم کی نشاندہی کرکے حکومت کی کوشش بھی ناکام بنا دیتی ہے البتہ گزشتہ روزقومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی سے یہ ثابت ہو گیا کہ اپوزیشن کو قومی مسائل سے غرض نہیں، مگر ذاتی مسائل کےلئے پارلیمنٹ کو استعمال کر سکتی ہے جہاں تک سینٹ کے انتخابات کا تعلق ہے تو سیاسی پارٹیوں نے اپنی گنتی مکمل کرنے اور کمی بیشی کا تدارک کرنے کی کوشش شروع کر دی ہیں اس وقت حکومتی پارٹی پی ٹی آئی پنجاب، کے پی اور بلوچستان میں اپنے امیدوار منتخب کرانے کی پوزیشن میں ہے سندھ میں بھی اتحادیوں کے تعاون سے دو نشستیں جیت سکتی ہے جبکہ پیپلزپارٹی کو سندھ، مسلم لیگ ن کو پنجاب اور جے یو آئی کو کے پی میں امیدیں وابستہ ہیں لیکن یہ جماعتیں، سینیٹ میں اپنی کم ہونے والی نشستیں بھی پوری نہیں کر پائیں گی اس لئے بہت کم امکان ہے کہ نئے امیدواروں کو ٹکٹ مل سکے، کیونکہ ریٹائر ہونے والے سینیٹرز کی اکثریت کو ہی دوبارہ لایا جائے گا، البتہ حکومتی پارٹی پر ٹکٹوں کےلئے دباو¿ بڑھتا جا رہا ہے جبکہ اتحادی ق لیگ کو بھی ایک نشست دینے کا وعدہ کیا گیا ہے یہ ٹاسک حاصل کرنا آسان نہیں۔اسی مجبوری کے تحت حکومت ہر حال میں سینٹ کے الیکشن اوپن کروانے کےلئے سازگار سارا زور لگا رہی ہے، تاکہ پارٹی ڈسپلن توڑنا ممکن نہ رہے اور پارٹی فیصلے کے خلاف ووٹ دینے والا رکن اسمبلی اپنی نشست سے محروم ہو جائے اگر ماضی کی روایت دیکھی جائے تو یہ آئین ہر پارٹی کی ضرورت ہے اور اور اسی سے پارلیمنٹ کا تشخص بھی بحال کیا جا سکتا ہے لیکن موجودہ حالات میں اپوزیشن حکومت کی مخالفت میں اس ترمیم کی مخالفت کر رہی ہے، اس وقت تمام سیاسی جماعتیں نیب اور الیکشن اصلاحات کے حوالے سے ضروری ترامیم چاہتی ہیں لیکن موجودہ حالات میں اپوزیشن کا رویہ عجیب ہے، وہ پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے، مگر پارلیمانی امور اور آئین سازی میں کوئی حصہ نہیں لے رہی حکومت نے اگر اپنے زور پر ایسی ترمیم کر بھی لیں تو ان میں کوئی نہ کوئی کمی رہ جائے گی اور یہ یکطرفہ ہی ہونگی اس لیے اپوزیشن کو آگے بڑھ کر اپنے فائدے کےلئے اس آئین سازی میں حصہ لینا چاہئے اور ارکان اسمبلی پر سے فروخت ہونے کے داغ کو دھونے میں تعاون کرنا چاہئے۔