چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس تو چار ماہ میں ہم تک پہنچ گیا تھا، مگر تقریبا ایک سال کے بعد اس کے تدارک کی ویکسین بھی پہنچ ہی گئی، ہمیں دوست ملک چین سے کورونا کی ویکسین ملنے کی امید تھی ہی، لیکن ہماری حالت دیکھ کر دیگر ممالک بھی عطیہ کرنے کو تیار ہیں۔ اگرچہ ابھی تک امریکہ، چین، روس، برطانیہ بھارت میں ہی ویکسین تیار ہوئی ہے اور اس کے کلینیکل تجربات کی بنیاد پر ہی اس کی کامیابی کا تناسب طے کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں ہر اس ویکسین کے خلاف منفی سوچ ضرور پیدا ہوتی ہے، جو باہر تیار ہوئی ہو اور کوئی دوسرا ملک مفت دے رہا ہو۔ بچوں میں مہلک بیماریوں کے خلاف مدافعت کے لئے ویکسینیشن کا کورس ہے، اس سے خسرہ، چیچک اور پولیو پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے، پاکستان میں پولیو کے حفاظتی قطرے کے حوالے سے منفی سوچ پروان چڑھی کہ یہ عالمی سازش ہے، اور جس بچے کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے، وہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے گا۔ اس غیر حقیقی اور غلط پروپیگنڈے کا کچھ پسماندہ اور کچھ تعلیم یافتہ علاقوں میں اتنا اثر ہے کہ والدین نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کر دیا، اس سے بڑھ کر یہ ظلم کہ مخصوص گروہ، پولیو کے قطرے پلانے والی خواتین ہیلتھ ورکرز پر حملے کرنے لگے۔ اگرچہ حکومت اور محکمہ صحت نے جید علمائے کرام کے فتوے بھی حاصل کیے، اور میڈیا کے ذریعے یہ تاثر زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پولیو کے قطرے بے ضرر ہیں، ان سے کوئی نقصان نہیں، بلکہ عمر بھر کی معذوری سے بچانے کی دوا ہے، لیکن جن کے ذہن میں غلط فلسفہ بیٹھ گیا، وہ اب بھی کسی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اب کورونا کی ویکسین آنے سے پہلے ہی اس کے خلاف سے سازشی تھیوریاں پھیلنا شروع ہو چکی تھی، حتی کے کورونا کو بھی وائرس تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا، اور برطانیہ جیسے ملک میں اس کے بارے میں افواہ پھیلی کہ یہ فائیو جی سگنلز کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری ہے، اور لوگوں نے کئی جگہ فائیو جی کے ٹاور گرا دیئے۔ اس کو لیبارٹری میں تیار کردہ وائرس بھی کہا گیا، کچھ کے نزدیک یہ چین نے خود تیار کرکے دنیا میں پھیلایا اور کچھ کا دعویٰ ہے کہ یہ امریکہ نے چین کو تباہ کرنے کیلئے تیار کی اور اپنے فوجیوں کے ذریعے چینی شہر ووہان میں پھیلا دیا، اگرچہ ان دونوں نظریات کو کسی مصدقہ ذریعے سے تقویتنہیں ملی، مگر ابھی تک عالمی ادارہ صحت بھی اس حوالے سے واضح نہیں ہے اور ایک ٹیم ووہان میں اس بات کی تحقیق کرنے کے لئے گئی ہے کہ یہ وائرس کیسے پیدا ہوا۔ بہرحال اب اس کی ویکسین تیار ہوچکی ہے اور تقریبا دنیا کے ہر خطے میں تیار ہوئی ہے، اگر صرف امریکہ اور چین میں تیار ہوتی تو پھر شاید سازشی نظریات کو مزید تقویت ملتی، مگر یہ دونوں عالمی بلاکس کے مالک نے تیار کی ہے، اس لئے ساری دنیا میں ویکسینیشن کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان کی وزارت صحت نے ویکسینیشن کی رجسٹریشن بھی شروع کر دی ہے، اس لئے کوویڈ 19 کے حوالے سے دیئے گئے اطلاعاتی نمبر 1166 پر اپنے شناختی کارڈ کا نمبر بھیجنے سے ہو سکتی ہے، جس کے بعد آپ کو ایک ایس ایم ایس کے ذریعے رجسٹر ہونے اور ویکسین لگوانے کے لیے متعلقہ سنٹر کی رہنمائی کی جائے گی۔ بظاہر تو یہ بہت آسان سا طریقہ ہے، لیکن اس پر رجسٹریشن مشکل مرحلہ ہے‘ ہمارے ہاں عید وغیرہ کے موقع پر مبارکباد دینے کی رش کے باعث موبائل سگنل ڈیڈ ہو جاتے ہیں اور مواصلاتی نظام ہی بیٹھ جاتا ہے۔ یہ تو جان بچانے کی دوڑ ہے، یہ کام ترتیب وار اور صبر و تحمل سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے، اور اس بات کی ہم میں سخت کمی ہے۔ اب اگر بچوں کو نکال بھی تو ملک میں اٹھارہ کروڑ آبادی دس سال سے اوپر عمر کی ہے، اور ابھی ہمیں ایک کروڑ ویکسین ڈوز ملنے کی امید ہے، اب ہر کوئی پہلے لگوانا چاہے تو نظام درہم برہم ہونا ہی ہے، اس لئے حکومت کو ایک طرف ویکسینیشن شروع کرنی چاہئے تو ساتھ ویکسین کے مزید حصول کی جدوجہد بھی تیز کرنی چاہئے۔