کسی آدمی کی بڑائی کے بہت سے پیمانے رکھے گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک بڑا آدمی وہ ہے کہ جس کا ضمیر جاگ رہاہو ۔ وہ اپنی آپ کی لڑائی میں جیت جائے ۔ ایک ایسا انسان کہ جب اُس پر کوئی مصیبت آئے تو وہ صبر سے کا م لے اور وہ اپنے آپ کو برا کہنے والوں کا بھی برا نہ چاہے ۔ اگر دل میں وہ برا مناتا بھی ہو تو بھی اُس کے منہ سے کبھی کسی کی برائی نہ سنائی دے۔ آج کا دور تو الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے کہ ایک خبر سیکنڈوں میں پوری دنیا گھوم کر آپ کے پاس آ جاتی ہے۔اگر کسی انسان کو میڈیا میں ہر کوئی برا کہہ رہا ہو اور وہ کسی کا جواب برائی سے نہ دے رہا ہو جب کہ اُسکے بس میں ہوکہ وہ ہر شخص کو جواب دینے کی قوت رکھتا ہو اور یہ بھی کہ اگر چاہے تو اپنے برا کہنے والوں کو نہ صرف جواب دینے کی طاقت رکھتا ہو بلکہ اُن کے منہ بھی بند کرنے کی طاقت رکھتا ہو پھر بھی وہ صبر سے کام لے اور کسی کا برا نہ چاہے اور نہ کسی کے ساتھ عملی طور پر برا کرے ،وہ آدمی ہماری نظر میں سب سے بڑا آ دمی کہلانے کا مستحق ہونا چاہئے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم سے کوئی اتفاق نہ کرے لیکن اگر کسی بھی انسان میں خو د پر قابو پانے کی صلاحیت ہو اور وہ اس کا عملی مظاہر ہ بھی کر رہا ہو تو اسے کیوں نہ بڑا انسان کہا جائے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے انسان مل جائیں گے اور دوسرے وہ ہیں جن میں برداشت کا مادہ سرے سے موجود نہیں، صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنے کی بجائے عدم برداشت پر عمل پیرا ہیں۔ایک اور انسان کی بڑائی کی نشانی اس کی مستقل مزاجی ہے یعنی مستقل عزت دار شخص وہی ہوتا ہے کہ جو اپنی امیری یا غریبی میں یکساں رہتا ہو ۔بات ہو رہی ہے ہمارے رویوں کی جس میں تحمل اور رواداری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ۔ دوسروں کی تنقید کو برداشت کرنا اور اس سے اپنے لئے مثبت اشارے اخذ کرنا اس شخص کا کام ہے جو اپنے منزل کی جانب سفر کرتے ہوئے دوسروں سے رہنمائی حاصل کرنے میں عار نہیں سمجھتا۔ ہماری سیاست بھی آج کل کسی اور رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ ہر ایک کوشش ہے کہ دوسرے کی شخصیت کوداغدار کرے اور اپنے آپ کو دوسروں پر فوقیت دے۔ حالانکہ سیاست تو نام ہے صبرو تحمل اور دوسروں کی خدمت کا ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومتیں آتی جاتی ہیں مگر ملک کے دیرینہ مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔ان کے حل کیلئے کوششیں کرنے کی بجائے ذاتی مفادات کو تقویت دی جارہی ہے جس کا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ ان افراد کی طاقت کے دور میں لوگ ان کی تعریفیں کرتے ہیں تاہم جب وہ طاقت و اختیار سے محروم ہو جاتے ہیں تو پھر سب ان سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔ اس وقت وطن عزیز میں جس طرح کے حالات ہیں اور بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو سیاست میں تحمل و برداشت کی اشد ضرورت ہے اس سلسلے میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے ملکی مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کریں اور عوام کو درپیش مشکلات کا احساس کریں ایک وقت تھا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میںحزب اختلاف اور حکومت دونوں مل کر اہم ترین قانون سازیاں کرتے تھے اس وقت جو زعماءایوانوں میں موجود تھے ان کو وقت کے قیمتی ہونے کا احساس تھا اور ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ عوام نے ان کو جس مقصد کے لئے منتخب کیا ہے اس کی طرف توجہ دینا ان کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کے باوجود اہم امور پر موافقت کے اصولوں پر کاربند رہتے اور کبھی سیاست میں دروازے مخالف جماعت کے لئے بند نہیں کئے۔ اس وقت جو حالات ہیں اس میں فراخدلی کا مظاہرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔