ہر تین سال بعد سینیٹ کے نصف ارکان کی ریٹائرمنٹ اور نئے ارکان کے انتخاب کے موقع پر ایک طرف پارلیمانی سیاست میں گہماگہمی آجاتی ہے، تو دوسری طرف سیاسی پارٹیوں کا بھی امتحان شروع ہو جاتا ہے، ہماری سیاست اور سیاسی قیادت کا المیہ ہے کہ جہاں ارکان پارلیمنٹ کا انتخاب عوام کے بجائے، خواص کے ہاتھ میں ہو یا خصوصی نشستوں پر نامزدگی کا قانون ہو، وہاں پارٹی وابستگی، سیاسی تجربہ، یا صلاحیت سے زیادہ ذاتی تعلقات وفاداری کو اہلیت اور میرٹ سمجھا جاتا ہے، اور من پسند امیدواروں کو دوسرے صوبوں سے بھی منتخب کروا لیا جاتا ہے۔ دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو بالترتیب پنجاب اور سندھ اسمبلی میں اکثریت حاصل رہی ہے، اور اسی وجہ سے پی ایم ایل این نے ماضی میں کئی سندھ سے تعلق رکھنے والے رہنماو¿ں کو پنجاب سے سینیٹر منتخب کروایا، تو پیپلزپارٹی نے پنجاب سے کئی لیڈروں کو سندھ کے کوٹے سے منتخب کروایا، اس روایت کی آئینی اور اخلاقی حیثیت ایک الگ بحث ہے، مگر سیاسی طور پر بھی اس کا متعلقہ پارٹیوں کو کم ہی فائدہ ہوا ہے، اگر پیپلز پارٹی کو دیکھیں تو سابق صدر آصف زرداری نے زیادہ تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنجاب سے ایسے رہنماو¿ں کو منتخب کروایا، جنہوں نے ایوان بالا میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور پارٹی کو فائدہ پہنچایا، سینیٹر فاروق نائیک، سینیٹر عبدالرحمن ملک اور سینیٹر مصطفیٰ نواز نے ثابت کیا کہ وہ سینیٹ کے رکن بننے کے اہل تھے، اس کے برعکس مسلم لیگ ن نے سینٹ میں جو بھی ٹکٹ دیئے، وہ اکثر پارٹی اور سینیٹ کےلئے بوجھ ہی ثابت ہوئے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشاہد اللہ خان، سینیٹر سلیم ضیا، سینیٹر نہال ہاشمی، سینیٹر اسد جونیجو اور سینیٹر راحیلہ مگسی کو پنجاب اور اسلام آباد کے کوٹے سے منتخب کروایا گیا، مگر ان میں سے صرف مشاہد اللہ خان نے ایوان بالا میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور پارٹی بیانیے کی تقویت کا باعث ثابت ہوئے، باقی کبھی سینٹ میں بولے ہی نہیں۔ اب پھر سندھ سے سابق گورنر محمد زبیر اور پی ایم ایل ن سندھ کے صدر سید شاہ محمد شاہ کو پنجاب کے کوٹہ سے منتخب کروانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے، اگر سیاسی طور پر دیکھا جائے تو محمد زبیر سے زیادہ شاہ محمد شاہ زیادہ موثر ثابت ہوسکتے ہیں، کیونکہ ان کی ایک سیاسی پہچان اور شناخت ہے اور اندرونِ سندھ پارٹی کو مقبول بنانے کے لیے معاون ثابت ہو سکتے ہیں، محمد زبیر گورنر رہے ہیں، مگر اس دوران ایم کیو ایم کو بھی اتحادی حیثیت سے مطمئن نہیں رکھ سکے تھے۔ اس بار مسلم لیگ ن کے پاس پنجاب کے علاوہ کسی صوبے میں سینیٹر منتخب کروانے کی پوزیشن نہیں ہے، پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم سے ممکن ہے کہ بلوچستان سے ایک نشست مل جائے، یا خیبر پختونخوا میں چانس نکل آئے، مگر اس کے بدلے پنجاب سے کسی اتحادی کو اکاموڈیٹ کرنا پڑے گا، جبکہ پنجاب میں بھی انتہائی احتیاط کے ساتھ پولنگ کروانے اور اپنے ووٹوں کا استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ پانچ نشستیں جیتی جا سکتی ہیں، اگر سیاسی طور پر دیکھا جائے تو آئندہ اڑھائی سال مسلم لیگ ن کے لئے مشکل اپوزیشن کے ہیں، اور اس دوران ایسے رہنماو¿ں کی سینٹ میںضرورت ہے، جو ایوان کے ساتھ عوام کے اندر بھی مقبولیت رکھتے ہوں اور پارٹی کے ساتھ چل سکتے ہوں۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سینیٹ ایوان بالا قانون سازی کے حوالے سے ایک اہم فورم ہے اور ایک طرح سے قومی یکجہتی کی علامت بھی ہے جہاں سب کی برابر نمائندگی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے ضروری ہے کہ یہاں پر ایسے لوگ آئیںجو نہ صرف قانون سازی کے حوالے سے اہم کردار ادا کرسکیں بلکہ وہ قومی اتحاد کے علمبردار بھی بنیں۔ اس وقت جس قدر قومی یکجہتی کی ضرورت ہے شاید ہی کبھی ہو۔سینیٹ الیکشن میں ووٹ کے تقدس کو بھی مد نظررکھنا ضروری ہے ۔ماضی میں جماعتوں کا ا س حوالے اتفاق بھی سامنے آیا تاہم اس وقت حکومت کی کوشش ہے کہ سینیٹ الیکشن میں ووٹنگ کے طریقے کو زیادہ شفاف بنایا جائے اور حزب اختلاف اس کی مخالفت کررہی ہے۔ یہ بہت اہم ایشو ہے جس کو حل کرنا از حد ضروری ہے۔