موسم میں تبدیلی کے آثار پیدا ہو رہے ہیں اگر چہ کہا جا رہا ہے کہ اب کے زمستاں کا باد باں دیر تک کھلا رہے گا اور دیر تک تیز ہوائیں اس کے ساتھ اٹھکیلیاں بھی خوب کریں گی، ہواو¿ں میں شدتوں کی رت کی چاپ تو سنائی دینا شروع ہو چکی ہے کیونکہ پھاگن کا مہینہ شروع ہونے میں بس کچھ ہی دن باقی ہیں اور پھاگن میں ہوائیں درختوں کے پژ مردہ پتے گرانے کے کام پر مسلسل مامور رہتی ہیں،افسردہ دل اسی لئے اسے پت جھڑ بھی کہتے ہیں، اس رت میں اگر چہ بادلوں کے بھی پھیرے لگتے رہتے ہیں تا ہم ان کے چھاگلوں میں جل تھل ایک کرنے والی بارشیں کم کم ہی ہوتی ہے، البتہ ا س مہینے میں ایک غیر محسوس سی خوشبو سارے میں پھیل جاتی ہے جو نمو کے واسطے بے تاب کونپلوں کی آمد کا دل خوشکن سندیسہ ہوا کرتی ہے، خواجہ حیدر علی آتش نے اس کیفیت کی شعر تصویر اس طرح بنائی ہے
ہوائے دور مئے خوشگوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے جاتی بہار راہ میں ہے
پھاگن کے مہینے میں جہاں ابھی شاخیں پھوٹنے اور کلیاں چٹکنے کی تیاری کر رہی ہوتی ہیں وہاں سرسوں کے کھیت زرد پھولوں سے بھر جاتے ہیں یہ رنگ بسنت کا رنگ کہلاتا ہے جاننے والے کہتے ہیں کہ زرد رنگ نفرت ،بیماری اور افسردگی کا رنگ ہے مگر دور تک پھیلے ہوئے سرسوں کے کھیتوں میں ہواو¿ں کی تال پر سر ہلاتے اور رقص کرتے ہوئے زرد رنگ کے پھول کو دیکھ کر دل میں عجب جوت جاگتی ہے اور طبیعت ہشاش بشاش ہی نہیں کھلنڈری بھی ہو جاتی ہے اسی لئے سرما کی رت کی شدت سے گھروں میں دبکے ہوئے من چلے باہر آ جاتے ہیں جہاں سورج بھی سرما کی تعطیلات منا کر واپس اپنا روپ دکھانے آ یا ہوتا ہے یہی وہ دو رنگی رت ہے جب دھوپ میں گرمی اور چھاو¿ں میں سردی کا احساس ہونے لگتا ہے، اور اسی موسم میں سونا سونا آسمان رنگ برنگے پتنگوں سے بھر جاتا ہے، دیہاتوں میں یہی رنگا رنگی ان راستوں میں نظر آنے لگتی ہے جو کھیتوں کھلیانوں سے ہو کر گزرتے ہیں کہ رت بدلتے ہی گھروں سے سیر کےلئے نکلنے کے بہانے تلاشنے پڑتے ہیں، یار لوگ اس لئے بھی خوش ہیں کیونکہ شنید ہے کہ وبا کی شدت میں سرما کے ختم ہونے سے کمی واقع ہو جائے گی ،یہ ایک مفروضہ ہی سہی مگر ’ دل کے خوش رکھنے کو “ اسے مان لینے میں کیا حرج ہے، احتیاط کے تقاضے اپنی جگہ مگر اس سوچ سے قدرے زہنی آسودگی تو میسر آ جاتی ہے، حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ تمام تر آ گہی کے باوجود یہاں وہاں بے فکروں کی ٹولیاں اپنی روز مرہ کی سرگرمیوں میں جتی ہوئی ہیں ،اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سرکار اور میڈیا مسلسل احتیاط کے مشورے ہی نہیں دے رہا بلکہ خلاف ورزی پر پکڑ دھکڑ بھی کرتا رہا ہے مگر یار لوگوں کی سر گرمیوں کے آگے کوئی دیوار کھڑی نہیں ہو پائی ، پھر ایک نفسیاتی مسئلہ بھی سب کے ساتھ لگا رہا کہ جہاں بیس لوگوں کا اجتماع تھا یا سینکڑوں لوگ موجود تھے وہا ں جن پانچ دس محتاط لوگوں نے ماسک لگایا یا دوسروں سے قدرے فاصلہ رکھا ہو تا ہے ان کو اپنا آپ بہت عجیب ہی نہیں بزدل بھی نظر آنے لگتا اس لئے کچھ ہی دیر میں وہ بھی ساری احتیاط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ماسک کو تہہ کر کے جیب میں ڈال لیتے ہیں اور محفل میں فاصلے ختم کر کے گھل مل جاتے ہیں، باہر کی دنیا میں سرکار کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کا خیال رکھا جاتا ہے ہر چند وہاں بھی ہمارے علاقے سے گئے ہوئے لوگ موقع ہی پاتے ہی ساری پابندیوں کو توڑ دیتے ہیں لیکن یہ دورانیہ اس لئے طویل نہیں ہوتا کہ وہاں سرکار کی آنکھ کھلی ہوتی ہے، اس کے بر عکس ہمارے ہاں سرکار کی طرف سے ان بندشوں کے اعلانات تو ہوتے رہتے ہیں لیکن ایسے احکامات پر عمل در آمد کے سسٹم میں اتنا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ شاید ہی اب اس کے سدھرنے کی کوئی صورت پیدا ہو، اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے یا بٹھا دی گئی ہے کہ جب بھی سرکار کی طرف سے کوئی حکم نامہ آئے گا تو اس میں فائدہ بر سر اقتدار جماعت کا اپناہو گا کیونکہ سرکار کی ترجیحات میں عام آدمی کی بھلائی کبھی شامل ہی نہیں رہی، یہ محض وبا کے دنوں کا المیہ نہیں یہ ہر موسم ہر رت میں اپنے لوگوں کو مایوسی کے علاوہ کوئی اور تحفہ نہیں دیتا، ایک تجاوزات کو لے لیں متعلقہ محکمہ اگر کبھی جاگ جائے اور آپریشن شروع کر دے تو تھوڑی دیر کےلئے ان کے ڈر سے ہتھ ریڑھیوں والے اور تہہ بازاری اپنا اپنا سامان اٹھا کر دائیں بائیں کی بغلی گلیوں میں چھپ جاتے ہیں اور محکمہ کے اہلکاروں کے جاتے ہی دوبارہ نکل آتے ہیں کیونک ان کو علم ہے کہ اب پھر مہینوں تک کوئی ان کی طرف نہیں آتا اور ایک دو لوگ اگرپکڑے بھی جائیں یا ان کا سامان وقتی طور پر ضبط بھی کر لیا جائے تو ہمارے ہاں کا ” سفارشی سسٹم “ شام سے پہلے پہلے ان کو واپس دلا دیتا ہے، صرف یہی نہیں ہمارا میڈیا بھی ان کا طرف دار بن جاتا ہے اور ان کی مجبوریوں کو قابل رحم بنا کر دکھانے لگتا ہے کہ دیکھنے والوں کو ان سے ہمدردی اور سرکار کے اقدام سے نفرت ہو جاتی ہے، جس کا نتیجہ سامنے ہے کہ شہر کا شہر نہ صرف بے جان اشیا کی غیر قانونی بھر مار سے اپنی شکل و صورت کھو چکا ہے بلکہ نشہ کے عادی لوگوں کے جمگٹھے آپ کو جگہ جگہ نظر آئیں گے جو سر عام سر جھکائے ہوئے بیٹھ کر نشہ کر رہے ہوتے ہیں مگر جن کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں، ان لوگوں سے نہ صرف قانون کی پاسداری کرانے والے ادارے آنکھیں چرائے ہوئے ہیں بلکہ عام شہری بھی شیخ ابراہیم ذوق کا شعر خود کلامی کے انداز میں پڑھتے ہوئے ان کے قریب سے بیگانہ وار گزر جاتے ہیں۔
رند ِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ایک لمحہ کو سوچئے کہ کسی سماج میں جب ” تجھ کو پرائی کیا پڑی،،“ قسم کا احساس بیگانگی جنم لیتا ہے تو اس سماج کے سدھرنے کی کتنی گنجائش رہ جاتی ہے، چونکہ ہم آپ سب ”تجھ کو پرائی کیا پڑی۔۔“ کے خوگر ہیں اس لئے ’ ہمارے سماج پر ’ حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے “ کی پھبتی جوں کی توں ہے ۔کیونکہ کوئی بھی رت ہو ہمارا احساس بیگانگی ہمیں بے پروا اور لاتعلق رکھتا ہے، اس لئے سرکار اور میڈیا کی بات جس طرح ہوا کے دوش پر سوار آ تی ہے اسی طرح ہواو¿ںمیں بکھر جاتی ہے، اس لئے اگر چہ موسم میں تبدیلی کے آثار پیدا ہو رہے ہیں مگر یار لوگوں کی سوچ میں اگر بدلاو¿ نہیں آتا توبھلے سے موسم پھاگن کی تیز و تندہواو¿ں کا ہو یا ساون بھادوں کی سیلی سیلی ہواو¿ں کا کسی بھی رت کی جھولی میں ہمارے لئے کوئی اچھی خبرنہیں ہو گی۔ تو پھر ایک سے گزرنے والے شب و روز میں مصطفی زیدی کی طرح ہم بھی کہہ اٹھیں گے
میز چپ چاپ گھڑی بند کتابیں خاموش
اپنے کمرے کی اداسی پہ ترس آتا ہے