کسی بھی ملک میں معاملات کتنی شفافیت کے ساتھ چلتے ہیں اور حکومتی اخراجات اور دیگر خرچے کس طرح مانیٹر کئے جاتے ہیں یہ ایک اہم مرحلہ ہے جس سے کسی ملک کے منفی اور مثبت امیج کا تعلق ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جو ہر سال پوری دنیا میں مختلف سروے کرتی ہے اور ملکوں میں کرپشن کا انڈیکس جاری کرتی ہے۔ اس سال کی کرپشن انڈیکس میں پاکستان کی چار درجہ تنزلی ہوئی ہے۔یعنی سال 2019 , 2020 میں پاکستان میں دوسرے سالوں کی نسبت کرپشن میںاضافہ دکھایا گیا ہے۔ حکومتی نمائندوں کے مطابق یہ سارا کچھ مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران کی تحقیقات کا نتیجہ ہے اور جو نمونے لئے گئے وہ پہلے کے ہیں اور اس میں اس حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ تاہم جو بھی ہے وہ تشویشناک ضرور ہے کہ پاکستان کے منفی اور مثبت امیج کا معاملہ ہے۔ کرپشن کسی بھی دور میں کی گئی ہو یہ نا قابل قبول ہونی چاہئے اور اس کی خودحکومت پاکستان کو بھی تحقیق کرنی چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ ایک ہی سال میں کرپشن کیوں اتنی زیادہ ہوئی ہے۔، اگر ابھی تک کچھ کمزوریاں ہیں تو ان کو دورکر کرنا چاہئے ۔دوسری طرف اس رپورٹ میں یہ تذکرہ بھی موجود ہے کہ اس نے اچھی خاصی ریکوری کی ہے اور یہ ایک اچھی پیش رفت ہے ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ہر حکومت چاہے وہ پی پی پی کی ہو یا مسلم لیگ ن کی ان حکومتوں کو وقت سے پہلے نکالا تھا اور ان کو کرپشن ہی کی وجہ سے نکالا گیا تھا ۔ اس وقت صدر پاکستان کو یہ پاور تھی کہ اگر کوئی حکومت کرپشن میں ملوث ہے تو اس کو ختم کر دیاجائے۔ پی پی پی کی حکومت کو تو خود ان کے اپنے صدر مملکت نے نکالا تھا۔ اب اتنی بات تو سب ہی کر رہے ہیں مگر کوئی یہ نہیں کرتا کہ یہ کرپشن کا جو جن اس ملک میں ناچ رہاہے اس کو بھی قابوکرنے کی کوئی صورت نکالی جائے ۔ کرپشن دور کرنے کے لئے ادارے بھی بنائے گئے مگر کرپشن پھر بھی جڑ سے نہ اکھاڑ پھینکی جاسکی ادارے لوگوں کو پکڑتے بھی ہیں اور جرمانے کر کے چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر کرپٹ لوگوں کو صرف جرمانے کر کے رقمیں وصول ہی نہ کی جائےںبلکہ ان لوگوں کو نشان عبرت بھی بنایا جائے تا کہ آئندہ یہ کام نہ ہو تو اس کے نتائج زیادہ بہتر سامنے آسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ احتساب کا عمل کسی بھی معاشرے میں سدھار کے لئے نہایت ضروری ہے اور اس کے بناءکرپشن اور دیگر بیماریاں جگہ پکڑتی ہیں اس حوالے سے نیب کا قیام عمل لایا گیا ہے اور باوجود چند کمزوریوں کے اس ادارے نے اپنی موجودگی کا احساس کامیابی سے دلایا ہے اور کرپشن کرنے والے اب یقینا کئی مرتبہ سوچنے کے بعد ہی ایسا کوئی قدم اٹھائیں گے کیونکہ نیب نے اس حوالے سے موثر مانیٹرنگ کا نظام تشکیل دیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بہتری کی گنجائش ہر حال میں رہتی ہے اور بدلتے حالات کے ساتھ پالیسیوں کو زیادہ موثر بنانا ضروری ہے یہ فارمولا نیب پر بھی لاگو ہے اگر دوسری طرف ہم اپنے معاشرتی رویوں پر نظر ڈالیں تو دولت کمانے کی دوڑ نے سب سے زیادہ کرپشن کو رواج دیا ہے اگر ہر کوئی یہ سوچے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق زندگی گزاریں تو پھر کہاں گنجائش رہتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کے افراد کو خطرے سے دوچار کرے یعنی کرپشن کا خاتمہ جہاں اداروں کی ذمہ داری ہے وہاں ہر فرد کا اس میں اہم انفرادی کردار ہے کہ وہ اپنے اردگرد ماحول پر نظر رکھے اور ایسی کسی بھی کوشش کو ناکام بنائیں جو ملکی وسائل کو خطرے میں ڈالتی ہو۔