محکموم کشمیری اور ہمارا رویہ۔

کشمیری مظلوم اور محکموم مسلمان ہیں جو 1948ءسے لے کر آج تک بھارت کے جبری تسلط کا شکار ہیں‘ حالانکہ ان کے حق خود ارادیت اور آزادی کے لئے ایک وقت ساری دنیا حمایت کر رہی تھی ‘ خود بھارت نے اقوام متحدہ میں وعدہ کیا تھا کہ کشمیریوں کو ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے گا‘ اقوام متحدہ کی دو قراردادیں موجود ہیں‘ جن کے ذریعے بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں استصواب رائے (ریفرنڈم) کرنے کا کہا گیا تھا لیکن بھارت کی ہر آنے والی حکومت نے ان پر عمل کرنے کی بجائے مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ اور تسلط مضبوط تر کیا ہے ‘ ایک طرف کشمیری مسلمانوں کے اوپر ظلم اور جبر بڑھتا رہا تو دوسری طرف آئینی ترامیم کے ذریعے ان کے حقوق کو ختم کیا جاتا رہا اس کے باوجود کشمیریوں نے اپنی جان و مال اور عزت و آبرو پر کھیل کر 3نسلوں تک آزادی کی شمع روشن رکھی‘ انہوں نے بھارت کے ہر حربے کو ناکام بنایا اور جمہوریت کے ڈھونگ کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ‘ سچ یہ ہے کہ کشمیریوں نے اپنی قربانی اور جدوجہد سے اب تک مسئلہ کشمیر زندہ رکھا ہوا ہے‘ پاکستان نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورم پر کشمیر کا نام زندہ رکھا ہے ‘ہر دن کے ساتھ بھارتی مظالم اور دہشت گردی کا پنجہ مضبوط ہوتا رہا ہے بلکہ 5اگست 2019ءکو بھارتی حکومت نے تمام تر عالمی قوانین اور خود بھارتی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر سے متعلق قوانین تبدیل کرکے اس کی خصوصی حیثیت ختم کر دی‘ گزشتہ ڈیڑھ سال میں 30لاکھ بھارتیوں (جن کی اکثریت آر ایس ایس کے جنونی کارکنوں کی ہے) کو کشمیر کا ڈومیسائل دے کر مسلمانوں کی اکثریت ختم کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے‘ ہمارے شور شرابے پر تو دنیا نے توجہ نہیں دی البتہ خود بھارتی اقدامات کی دنیا میں انسانی حقوق کے اداروں نے مذمت کی لیکن عملی طور پر کسی طاقتور ملک نے بھارت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا ‘ہم سال میں کئی بار کشمیریوں کے حوالے سے دن مناتے ہیں‘ 5فروری بھی ایسا ہی دن ہے جو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے اس دن ملک بھر اور آزاد کشمیر میں سرکاری چٹھی ہوتی ہے اور حکومت و اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت مظفر آباد یا کسی دوسرے شہر میں جا کر جلسے کرتے ہیں‘ اس بار تو ساری سیاسی قیادت نے جلسے کئے ‘اس دن صدر مملکت نے دارالحکومت مظفر آباد میں قانون سازاسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا اور اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے مظفر آباد میں جلسہ کیا جبکہ حکومتی پارٹی تحریک انصاف نے کوٹلی میں جلسہ کیا جس سے وزیراعظم عمران خان نے خطاب کیا۔ دونوں جلسوں کی کاروائی الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے براہ راست دکھا ئی گئی ‘ ایک دوسرے پر الزامات کا جو رونا گزشتہ اڑھائی سال سے رویا جا رہا ہے اس کی باز گشت کشمیر کی وادیوں میں گونجتی رہی اگر عوام میں مقبوضہ کشمیر کے مظلوم بہن بھائیوں کے لئے کوئی جذبہ ہمدردی ہے بھی تو یہ سیاسی قیادت کا رویہ دیکھ کر ماند پڑ جاتا ہے ‘ ماضی میں اکثر یہ بھی دیکھا ہے کہ کم از کم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے اپوزیشن اور حکومت ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہوتے تھے اس سے بھارت کو یہ پیغام جاتا تھا کہ ہم سیاسی اختلافات کے باوجود کشمیریوں کی آزادی کے لئے ایک ہیں‘ آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور اس طرز عمل سے بھارت پر کیا دباﺅ آ سکتا ہے یہ سوچنے کی بات ہے۔