مہنگائی میں کمی۔۔۔

وزیر اعظم عمران خان نے خوشخبری سنائی تھی کہ مہنگائی کا گراف تیزی سے نیچے آ رہا ہے ہمیں بھی خوشی ہوئی کہ ہم نے تو ایک دفعہ جب کافی عرصے کے بعد بچوں کے جوتے لینے ایک کلاس فیلو کی دکان پر گئے تو معلوم ہوا کہ قیمتیں ہماری پہنچ سے اوپر جا چکی ہیں ۔ اس کے بعد ہم نے بچوں کو کہ جو اب کافی ہوشیار ہو چکے ہیں کہا کہ بچو ہماری ہمت نہیں ہے کہ ہم اشیائے ضروریہ کی قیمتیں سن کر ہوش و حواس قائم رکھ سکیں اس لئے اب آپ لوگ ہی خریداری کیا کریں ۔ اپنے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی اور ہم کبھی آپ لوگوں سے قیمتوں کے متعلق استفسار نہیں کریں گے ۔ اس لئے کہ ہم نے تو اپنے لڑکپن اور نیم جوانی کے دوران جو خریداریاں کیں اس میں گوشت آٹھ آنے سیر تھا اور دیگر اشیاءبھی اسی طرح کی سطح پرتھیں اور اب جب گوشت فی کلو کی قیمت سینکڑوں میں پہنچ چکی ہے تو ہم سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا۔ اس لئے بجائے دل جلانے کے بازار نہ جانا ہی بہتر ہے اس لئے کہ اس عمر میں دل جلاناٹھیک نہیں ہے۔ اب جب اپنے ہر دل عزیز وزیر اعظم کی زبان سے یہ سناکہ مہنگائی کو قابو کر لیا گیا ہے تو خوشی ہونا قدرتی امر ہے۔ مگر یہ خوشی بہت کم دیر کے لئے ہماری قسمت میں تھی اس لئے کہ آج کل قیمتیں جو ہیں وہ ایک دوسرے پر انحصار کر تی ہیں اور ان میں سب کا انحصار پٹرول کی قیمت پر ہے۔ اس لئے کہ اب وہ گدھوں اور اونٹوں والا زما نہ تو ہے نہیںکہ گھاس کھا کر باربردای کا کام کر یں گے اور گھاس بھی جنگلوںمیدانوں سے خود ہی کھا پی کر آ جائیں گے۔اسلئے نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے والی بات تو رہی نہیں کہ اب بار برداری کا کام گاڑیوں سے لیا جا رہاہے جو پٹرول کھاتی ہیں اور اب وہ ریل والی بار برداری بھی تقریباً ختم ہی ہوچکی ہے کہ ایک انجن دس بیس ڈبوں کو کھنچ سکتا ہے اور ہر ڈبے میں ٹنوں کے حساب سے اشیائے صرف آسکتی ہیں ۔ اب تو خود حکومت نے اپنی ٹرانسپورٹ کمپنیاںکھول لی ہیں جن کا مقابلہ تو کسی سے ہے نہیں کہ جس سے کرایوں میں کمی بیشی آ سکے تو حکومت کی مرضی ہے کہ وہ جو قیمت بھی وصول کرنا چاہے کر سکتی ہے۔ اسی طرح کی ٹرانسپورٹ کمپنیا ں عوامی سطح پر بھی آ گئی ہیں جنہوں نے ریل کا بھٹہ بٹھا دیا ہے۔ تو اب اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا تعین ٹرانسپورٹ پر آ گیا ہے۔ اس لئے کہ جو بھی چیز کھیتوں سے منڈیوںاور منڈیوں سے ملوں اور ملوں سے بازاروں تک پہنچتی ہیں تو اُن کی اصل لاگت کا دگنا چگنا خرچ آ جاتا ہے اور جب یہ صارف تک پہنچتی ہیںتو قیمت اُس کی پہنچ سے اوپر ہو جاتی ہے۔اسی لئے کسی بھی گھر کا خرچہ اُس وقت تک پورا نہیںہو سکتا کہ جب تک گھر کے سارے افراد کمانے والے نہ ہوں ۔ اب وہ دن گئے کہ جب باپ کماتاتھا اور خاندان کھاتا تھا۔ ادھر ہم خوشخبری دی گئی کہ قیمتیں کنٹرول میں آ رہی ہیں تو ادھر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ادھر حکومت نے ایک اور فیصلہ کیا کہ تیل کی قیمتوں کا تعین ہر پندرہ دن کے بعدکیا جائے گا تو اس ماہ کے دو پندرواڑوں میں تیل کی کل قیمت میں تقریباً آٹھ سے دس روپے فی لیٹر کااضافہ کر دیا گیا اور پٹرولیم کی قیمت کا اضافہ اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے سو قیمتوں میں کمی کی خوشخبری صرف پٹرلیم کی قیمت میں اضافے نے کھالی اور ہم پھر سے مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں میں پھنس چکے ہیں۔ اب معلوم نہیں ہو رہا کہ ہماری خوشی کوکس کی نظر کھا لیتی ہے۔ ہم جب بھی کسی بات پر خوش ہوتے ہیں ہماری خوشی بہت کم وقت ہی کی ثابت ہوتی ہے اور پھر وہی بے ڈھنگی چال ہو تی ہے جو پہلے سے رہی ہوتی ہے۔ ایک اورخوشی کی بات کہ سکول کالج اور جامعات کھل چکی ہیں اور ساتھ ہی کورونا کے بچاو¿کی ویکسین بھی چین سے پاکستان پہنچ چکی ہے اللہ کرے کہ اس بلا سے جان چھوٹے اور تعلیمی سرگرمیاں جاری و ساری ہوں۔