کوئی بھی کاروبار ہو وہ ہمیشہ منافع کمانے کیلئے ہوتا ہے اگر کسی کاروبار میں گھاٹا ہو رہا ہو تو اُس کاروبار کو ختم کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔یہ بات ہر کاروباری کیلئے لازم ہوتی ہے۔ یہ صرف ہماری حکومتیں ہیں کہ وہ ایسے کاروبار کرتی ہیں کہ جن سے سو دو سو نہیں بلکہ اربوں ڈالر کا ماہانہ نقصان ہوتا ہے مگر حکومت اس کاروبار کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر حکومت کا ایک کاروبار سٹیل ملز کاہے۔ کاروبار کے شروع میں یہ ایک بہت زیادہ منافع بخش کاروبار تھا، مگر چونکہ یہ حکومت کا کاروبار تھا اس لئے حکومت کے کار پردازوں نے اس کاروبار کو اپنی فائدے کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا اور متعدد سیاسی جماعتوں نے اس مل میں تھوک کے حساب سے کارکنوں کو بھرتی کیا گیا۔اس بات کا خیال نہ کرتے ہوئے کہ یہ ایک مل ہے اور اس میں کام کرنے والوں کا کام جاننا بہت ضروری ہے۔ ہوا یہ کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے کارندوں کو بھرتی کر کے گھر بٹھا لیا اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد گھربیٹھ کر تنخواہیں لینے لگی۔ جب کام کے بغیر تنخواہیں دی جائیں گی تونتیجہ ایک بے وقوف بھی نکال سکتا ہے۔ اور یہی ہوا کہ سٹیل ملز جو اربوں کما سکتی تھی اربوں کا نقصان کرنا شروع کر دیا۔ اور اب جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اب اگر کوئی بھی حکومت اس بلا سے جان چھڑانا چاہتی ہے تو کئی سیاسی جماعتیں آگے آجاتی ہیں جو اس کا نفع حاصل کر کے اس کو دیوالیہ کر رہے ہیں۔ سٹیل ملز ایک ایسا کاروبار ہے کہ جہاں نقصان کا تصور بھی نہیں ہے۔ اسلئے کہ جو لوگ یہاں بھرتی کئے جاتے ہیں ان کو خوب چھان پھٹک کر لیا جاتا ہے کہ وہ کام جانتے ہوں۔ یا اگر نئے ہیں تو ان کو پہلے ٹرینی کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اور جب کام سیکھ جاتے ہیں تو ان کو ملز میں کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ صنعتی شہروں میں جا کر دیکھیں کہ جو ملیں نجی ہیں ان میں منافع کا کیا حال ہے۔ اسی طرح پی آئی اے جیسا کامیاب او منافع بخش ادارہ بھی سیاسست کی بھینٹ چڑھ گیا، لوگوں نے بڑی بڑی پوسٹوں پر بھرتی ہو کر گھر بیٹھ کر تنخواہیں لینی شروع کر دیں اور جعلی لائسنسوں کے ذریعے جہازاڑانے شروع کر دیئے۔ اب خدا جانے ان لوگوں نے کبھی پی آئی اے کے دفاتر کو دور سے بھی نہ دیکھا ہو مگر ان کو گھربیٹھے تنخواہیں ملتی رہیں۔ ایسے میں اگر کوئی چاہتا ہے کہ پی آئی اے منافع بخش ہو تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتاہے۔ اب کوئی حکومت اگر واقعی حکومت ہے تو اسے ان اداروں کو نجی تحویل میں دے دینا چاہئے ایسے اور بھی کئی ادارے ہیں کہ جو صرف پارٹی کارکنوں کی روزی روٹی کے لئے کھلے ہیں اور حکومت کو تباہ کررہے ہیں۔ ان کی چھان بین کرنی چاہئے اور ان سے جان چھڑانی چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ موجودہ حکومت ہی کر سکتی ہے اور اسے کرنا چاہئے۔ اُن کارکنوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کہ جو ان اداروں کو تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اگر کوئی سیاسی جماعت رکاوٹ بنتی ہے تو اس کا علاج خود حکومت ہی کر سکتی ہے اور نج کاری کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ سرکاری ادارے جو خسارے میں جا رہے ہیں نجی تحویل میں دینے کے بعد منافع بخش بن کر کاروبار اور روزگار کا باعث بنیں‘ جہاں تک گنے کے کاشتکاروں اور شوگر ملوں کا تعلق ہے تو اس میں جس طرح حکومت کا رویہ ہے ہماری نظر میں یہ صحیح نہیں ہے۔ حکومت کو ان دونوں فریق کے ساتھ بیٹھ کر مسلے کا حل نکالنا چاہئے کہ جس میں نہ کسان کو نقصان ہو اور نہ شوگر ملوں کا نقصان ہو اور عوام کو بھی چینی مناسب نرخوں پر مل سکے۔ دیکھا جائے تو اکثر بحران اور کمی اگر کسی شے کی واقعہ ہوتی ہے تو اس میں زیادہ کردار انتظامی شعبے کا ہے کہ جس نے طلب و رسد کے اصولوں کو نظر انداز کیا اور منڈی میں یا کوئی حد سے زیادہ آجاتی ہے اور یا بالکل ناپید ہو جاتی ہے اس سلسلے میں تمام پیدواری شعبوں پر نظر رکھنا اور ان کی پیداواری صلاحیت کے مطابق منڈی میں انتظامات کرنا اولین ترجیح ہونی چاہئے جسے اکثر ادوار میں نظرانداز کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔