خودپرستی، من مرضی اور ہٹ دھرمی ایسے نفسیاتی عوارض ہیں، جو من حیث القوم ہم میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ کسی ایک طبقے پر محیط نہیں. بلکہ اعلی مقتدر طبقہ سے لے کر گلی محلے کی چودھراہٹ تک اور پارلیمنٹ سے لے کر بلدیاتی ارکان تک، ٹریڈ یونین سے لے کر پیشہ ورانہ ایسوسی ایشنز تک، جس کا جہاں سے تعلق ہے، وہ کسی دوسرے کو قبول کرنے کو تیار نہیں اور خود کو ہر قسم کی آئینی اور قانونی پابندیوں سے آزاد سمجھتا ہے. ان دنوں اسلام آباد میں معزز اراکین پارلیمنٹ اور ڈسٹرکٹ بار کے ممبران نے جو مظاہر دکھائے ہیں، یہ اگرچہ کوئی نئی بات نہیں، مگر کسی بھی لحاظ سے مثبت طرز عمل نہیں۔جہاں تک پارلیمنٹ کا تعلق ہے، اگرچہ اس بارے کچھ لکھنا مشکل ہے کہ ان آبگینوں کو ٹھیس لگنے کا خطرہ رہتا ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ ہماری پارلیمنٹ کی پارلیمانی اور جمہوری کارکردگی کبھی قابل رشک نہیں رہی ‘ ان دنوں قومی اسمبلی میں سینیٹ الیکشن کے حوالے سے ایسی قانون سازی زیر غور ہے ،جس پر میثاق جمہوریت کے ذریعے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی اتفاق کر چکی ہیں مگر آج اس کی محض اس لیے مخالفت کر رہی ہیں کہ یہ موجودہ حکومت کی خواہش ہے اور اس بل کے پیش ہونے سے پہلے ہی قومی اسمبلی میں وہ ہنگامہ ہوا کہ سپیکر قومی اسمبلی کو اس کے خلاف ایکشن لینا پڑا اور ذمہ دار ارکان قومی اسمبلی کو شوکاز نوٹس جاری کرنا پڑے مگر کسی سیاسی لیڈر کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ پارٹی کے ارکان کو پارلیمنٹ کے آداب سکھائے، اس کے برعکس المیہ یہ ہے کہ ہنگامہ آرائی کرنے اور گالی گلوچ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے سینیٹ الیکشن کے دوران جو کچھ لین دین ہوتا آیا ہے ،اس سے کون واقف نہیں۔ لیکن خود ارکان پارلیمنٹ اس مکروہ عمل کی راہ بند کرنے اور اپنی بدنامی کا سدباب کرنے کو تیار نہیں‘ اب دوسری طرف دیکھیں تو وکلاءکسی بھی ملک میں آئین و قانون کے پاسدار ہوتے ہیں ۔ اسلام آباد دارالحکومت ہونے کے باوجود ابھی تک باقاعدہ ڈسٹرکٹ کورٹس کی مخصوص جگہ یا عمارات سے محروم ہے یہاں ایک تجارتی مرکز میں کرائے کی عمارتوں میں عدالتیں قائم ہیں اور اس سے ملحقہ کھیل کے میدانوں اور گرین ایریا میں وکلاءنے اپنے دفاتر اور چیمبر تعمیر کررکھے ہیں کئی بار ان چیمبر کی توسیع کے معاملے پر سی ڈی اے اور وکلاءکے درمیان جھگڑے ہوئے گزشتہ روز بھی نئے تعمیر ہونے والے وکلاءچیمبرز کو آپریشن کے ذریعے کرایا گیا کہ یہ تجاوزات کے زمرے میں آتے تھے اس پر نوجوان وکلاءمشتعل ہوگئے ،پہلے تو ڈسٹرکٹ کورٹس میں سینئر وکلاء کے دفاتر پر حملہ کیا اور پھر اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے اور وہاں چیف جسٹس کے چیمبر میں بھی توڑ پھوڑ کی۔ اس وقوعہ پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا ہے اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور وکلاءتنظیموں کے نمائندوں کو طلب کرلیا ہے یہ عدلیہ کے اپنے تقدس کا معاملہ ہے ،وہ دیکھ لیں گے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ملک کے اہم ترین شہر اور دارلخلافے میں کیوں عدالتوں کی اپنی عمارتیں اور ساتھ وکلاءکیلئے مناسب بیٹھنے اور اپنے فرائض انجام دینے کیلئے جگہ مختص نہیں۔ دیکھا جائے تو ایسے واقعات کو روکنے کا صحیح طریقہ ان اسباب کو ختم کرنا ہے جن کے باعث یہ واقعات سامنے آئے جو نہ صرف اندرون ملک بے چینی کا باعث بنتے ہیں بلکہ ساتھ ہی بیرون ملک بدنامی کا باعث بھی ۔