سرکاری ملازمین اور۔۔۔

موجودہ حکومت کے اقتدار کے تقریباًتین سال مکمل ہونے والے ہیں۔ اس دوران اشیائے ضروریہ کی قیمتوں نے آسمان کا رخ کر رکھا ہے جب کہ حکومت نے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جب کہ اس سے قبل پی پی پی کی حکومت ہو یا مسلم لیگ ن کی حکومت ہو انہوں نے مہنگائی کو دیکھتے ہوئے ہر سال سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کبھی بیس اور کبھی دس فیصداضافہ کیا جس سے سرکاری ملازمین کو اپنے اخراجات کو پورا کرنے میں سہولت ملی ۔ اب سرکاری ملازمین کی صورت حال یہ ہے کہ ان کا تنخواہ کے علاوہ کوئی ذریعہ آمدن بھی نہیں ہوا۔ اور ایک ملازم آٹھ گھنٹے ڈیوٹی دینے کے بعد اس قابل ہوتا ہی نہیں کہ وہ کوئی اور دھندا کرے۔ اس لئے اس کو صرف اسی تنخواہ پر گزارہ کرنا پڑتا ہے اور جب بازار میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہو تا ہے تو اس کی تنخواہ اس کے اخراجات پورا کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ جو اس کےلئے اذیت کا سبب بنتی ہے۔ اسی لئے حکومتیں ان کی تنخواہوں میں مارکیٹ کو دیکھتے ہوئے کچھ نہ کچھ اضافہ کر دیتی ہے تاکہ وہ پوری یک سوئی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوںکو پورا کرنے کی طرف توجہ دے سکے۔ لیکن ہوا یہ کہ جب سے موجودہ حکومت نے اقتدارحاصل کیا تو اس کے بعد اب تک ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہو ا جب کہ اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ حکومت کو بھی نظر آ رہا ہے کہ اشیائے صرف کی قیمتیں ملازمین کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں اور حکومت بار بار اس کا اقرار بھی کر رہی ہے کہ اشیائے صرف کی قیمتوںمیں اضافہ ہو گیا ہے مگر اس طرف نظر نہیں کی جا رہی کہ تنخواہ دار ملازمین کی صورت حال کیا ہے۔ وہ کس طرح اپنے روز وشب گزار رہے ہیں۔ ادھر ہر رو بجلی تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب جو تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا نتیجتاً ساری اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ اس لئے کہ اشیائے صرف کی ٹرانسپورٹیشن اخراجات میں اضافہ ہو گا۔ اور یہ اضافہ ظاہر ہے کہ اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنے گا ۔ یہی ہوا ہے کہ حکومت کی طرف سے تیل ‘ گیس اور بجلی کی قیمتوںمیں اضافہ کیا جاتا ہے اور یہ اضافہ ہر پندرہ دن کے بعد ہو رہا ہے تو اس کا اثر جو کھانے پینے کی اشیا پر پڑتا ہے وہ تنخواہ دار طبقے کی زندگی میں عذاب کی صورت ظاہر ہو رہا ہے اسی لئے اب ملازمین کو سامنے آنا پڑا ہے کہ حکومت یہ دیکھے کہ ان کا کیا حال ہے اورمظاہرین پوری طرح زور لگا رہے ہیں کہ ان کا احتجاج ساری دنیا کو نظر آئے ۔ حکومت نے تنخواہوں میں اضافے کا اعلان تو کیا ہے مگر اس کےلئے اصل بات تو نو ٹیفیکیشن ہوتا ہے جو نہیںہو رہا اور ملازمین یہ جانتے ہیں کہ کوئی بھی بات جو حکومت کی طرف سے کی جاتی ہے اس کا زبانی ہونا کوئی مطلب ہی ¿نہیں ہوتا اس کے لئے ہمیشہ نوٹیفیکیشن ہوتا ہے اس لئے جھگڑا تو ہونا ہی ہے ۔ اب سارے صوبوں اور مرکزی ملازمین احتجاج میں شامل ہیں وہ سڑکوں پر ہیں اوراحتجاج کر رہے ہیںکہ ان کی تنخوہوں میں اضافہ کیا جائے اور یہ زبانی نہ ہو بلکہ اسکا نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے۔ اب جب کہ ملازمین کے لیڈروں کا پکڑ کر جیل بھیجا جا رہا ہے تو مطالبات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے کہ جن ملازمین کو پکڑا گیا ہے ان کو رہا کیا جائے ‘اب معاملہ تا دم تحریر اور بھی گمبھیر ہو رہا ہے ´ بات صر ف اتنی ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے ۔ یہ بات ملازمین کو نہیںکرنی چاہئے بلکہ اسے حکومت خود کرے اور ملازمین کی تنخواہوں کو مہنگائی کے مطابق کیا جائے ۔ جب ہر پندرہ دن بعد پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا تو اشیائے صرف کی قیمتوں میںبھی پندرہ روز کے بعد اضافہ ہو جائے گا۔