مےرے رفےق اور قوی خان کا ڈرامہ۔۔۔

میڈیاکے ساتھ ایک طویل وابستگی کے باوجود اس سے متعلق بہت کم لوگوںکے ساتھ میری ذہنی رفاقت رہی ہے ظاہر ہے شناسائی تو ہر ایک سے ہے لیکن قربت کا دعویٰ سوائے دوچار کے اور کسی سے نہےں ان میں ایک اداکار منور سعید ہےں جو کبھی خالص لاہوریئے تھے اور اب کراچی منتقل ہوچکے ہےں ہم دونوں کسی حد تک پڑوسی تھے اور ہمارے بچے ایک ہی سکول میں زیر تعلیم تھے چنانچہ طے یہ تھا کہ منور صبح سویرے مبلغ چھ عدد بچوں کو اپنی کار میں گانے گاتے لطیفے سناتے کیتھڈرل سکول چھوڑ آیا کریں گے اور میں ان بچہ جات کو چھٹی کے وقت بمشکل جمع کرکے گاڑی میں پیک کرکے گھر لے آیا کروں گا منور سعید خود بھی بہت پڑھے لکھے ہےں نہایت لطیف حس مزاح کے مالک ہےں لیکن اس مزاح کو تڑکا لگانے والی ان کی بیگم ہےں کہ سید محمد تقی کی بیٹی ہوں ‘رئیس امروہوی اور جون ایلیا کی بھتیجی ہوں تو ان کے پرکون کاٹے.... منور کو شطرنج کھیلنے کا چسکا ہے یہاں تک کہ کار کے ڈیش بورڈ میں بھی ایک ہنگامی بساط کا بندوبست ہے کہ اگر ٹریفک کی لائٹ سرخ ہے تو اسے برابر کی نشست پر بچھا کر دو چار چالیں چل لیں ایک بار اپنے اور میرے بچوں کو سکول چھوڑنے جارہے تھے اور دیر ہورہی تھی چنانچہ اڑے جارہے تھے مال روڈ کے ریگل چوک سے دائیں ہاتھ مڑنا تھا اور وہاں عین چوک کے بیچ میں دو حضرات کاریں روکے آپس میں گپ شپ میں مصروف تھے اور کچھ پرواہ نہ تھی کہ پیچھے سے آنے والی ٹریفک ان کی وجہ سے رکی ہوئی ہے منور نے فوراً اپنی ہنگامی بساط ڈیش بورڈ سے نکالی ‘بغل میں داب کر ان حضرات کے پاس پہنچے ان میں سے ایک کی کار کے بانٹ پر بساط بچھائی اور کہنے لگے ’حضرات شطرنج کی بازی لگانے کے لئے اس سے موزوں جگہ پورے شہر میں نہ ملے گی آیئے ایک بازی ہوجائے.... اور یہ جو ٹریفک رکی ہوئی ہے اسے دفع کیجئے اور اطمینان سے شطرنج کھیلئے....دونوں حضرات خجل اور شرمندہ معافیاں مانگتے چلے گئے.... میڈیا سے متعلق میرے دوسرے رفیق محمد قوی خان ہےں.... اگرچہ مجھے اتفاق تو نہےں ہے لیکن اب انشاءکا اورنگزیب کے بارے میں وہ فقرہ کہ ساری عمر اس نے نہ کوئی نماز چھوڑی اور نہ کوئی بھائی.... قوی خان پر بھی یوں منطبق ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی ساری عمر نہ کوئی فلم چھوڑی اور نہ کوئی ڈرامہ.... پاکستان فلموں کے چینل پر چلے جائیے وہاں ایک نوخیز قوی خان ہیروئن کے ساتھ چہلیں کررہے ہےں ڈراموں کا چینل لگایئے تو موجودہ قوی خان آج کی ناتواں ہیروئنوں کے سامنے گرج رہے ہوں گے یہاں تک کہ بچوں کے چینل پر سامری جادوگر بنے بیٹھے ہےں اور اگر سٹیج ڈرامے کو دیکھےں گے تو وہاں بہر طور وہ بھی ہوں گے .... قوی کے ساتھ بھی پارک میں روزانہ ملاقات رہتی ہے .... ان کی حس مزاح بھی لاجواب ہے ایک روز ہم دونوں کو اکٹھا دیکھ کر کسی صاحب نے کہا آج تو دوسپر سٹار ساتھ ساتھ جارہے ہےں ادھر ادھر دیکھ کر بولے ’بھئی یہ دوسرا کون ہے ‘ ایک روز ذرا رنجیدہ سے تھے میں نے سبب پوچھا تو کہنے لگے کہ تم جانتے ہو کہ میں نے دس سے زیادہ فلمیں پروڈیوس کی ہےں ان کے ڈبے ایک الماری کے اوپر پڑے دھول جمع کررہے تھے....ناہید کہنے لگی‘خان صاحب ان ڈبوں کا کیا کرنا ہے تو میں نے طیش میں آکر کہا انہےں کسی کباڑیئے کے ہاتھ فروخت کردینا ہے .... مجھے غصہ اس بات پر آیاکہ میری عمر بھر کی کمائی کے بارے میں میری بیگم کا یہ رویہ ہے کہ ان ڈبوں کا کرنا کیا ہے بہر حال انہی دنوں ایک پارٹی سے بات چل رہی تھی وہ میری ایک فلم خریدنے میں دلچسپی رکھتے تھے گھر واپس آکر دیکھا تو سارے ڈبے جن میں فلمیں بند تھےں غائب.... ناہید سے پوچھا تو وہ کہنے لگی وہ تو میں نے آپ کے کہنے کے مطابق ایک کباڑیئے کو بیچ دیئے تھے۔
ایک دن قوی کہنے لگے میں آج کل ایک سٹیج ڈرامہ کررہا ہوں جس میں ایک ایسا لاجواب سیکوئنس ہے کہ میں اپنا کام ختم کرکے پھر بھی وہےں بیٹھا رہتا ہوں تاکہ اس سے لطف اندوز ہوسکوں.... اور سیکوئنس کچھ یوں ہے کہ بارات آچکی ہے اور نکاح خواں کہےں ادھر ادھر ہوگیا ہے کسی دوسرے نکاح خواں کی تلاش ہوتی ہے لیکن شادیوں کی بھر مار کی وجہ سے کوئی دستیاب نہےں ہوتا چنانچہ ایک ایسے صاحب کی خدمات حاصل کرلی جاتی ہےں جو جنازے پڑھاتے ہےں انہےں اچھی طرح سمجھا دیا جاتا ہے کہ جنازہ نہےں نکاح پڑھانا ہے تو وہ کہتا ہے ’ٹھیک ہے وہ صاحب اس احاطے کے اندر داخل ہوتے ہےں جہاں باراتی بیٹھے ہوئے ہےں تو وہ ان سے مخاطب ہوکر کہتے ہےں اسلام وعلیکم یا اہل القبور.... اس پر انہےں سرزنش کی جاتی ہے کہ بھائی صاحب آپ قبرستان میں داخل ہوکرمردوں سے سلام دعا نہےں کررہے بلکہ آپ کے سامنے زندہ باراتی ہےں تو وہ کہتے ہےں ’ٹھیک ہے ‘ انہےں دولہا کے سامنے بٹھا دیا جاتا ہے کہ جناب یہ خوشی کا موقع ہے ‘موت کا گھر نہےں ہے آپ گفتگو ذرا احتیاط سے کریں اور وہ صاحب پھر بڑے اطمینان سے کہتے ہےں ٹھیک ہے۔ازاں بعد وہ دولہا میاں سے پوچھتے ہےں کہ برخوردار تمہارا نام کیا ہے۔
دولہا ایک طویل نام بتاتا ہے وہ صاحب سرہلاتے ہےں یہ تو بہت طویل نام ہے کتبے پر تو نہےں آسکتا...اب ان کی تھوڑی سی گوشمالی کی جاتی ہے ....ذرا ڈانٹا جاتا ہے کہ کمبخت یہ شادی کی محفل ہے کیوںاتنی بدشگونی کرتا ہے ....یاد رکھ تم نے نکاح پڑھانا ہے‘جنازہ نہےں.... وہ صاحب توبہ تائب ہوکر کہتے ہےں’ٹھیک ہے ....“نہایت سنجیدگی سے نکاح پڑھانے لگتے ہےں تویکدم رک جاتے ہےں’اس کا تو نکاح نہےںہوسکتا۔احباب پریشان ہوکر پوچھتے ہےںکہ کیوں؟ تو وہ کہتے ہےں اس کے انگوٹھے نہےں بندھے ہوئے اب انہےں خوب زدو کوب کیا جاتا ہے اور دھکے دے کر باہر نکال دیا جاتا ہے۔