رات گئے وفاقی حکومت اور احتجاجی سرکاری ملازمین کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے اور ملازمین 20 فیصد عبوری اضافے پر راضی ہو گئے۔ یہ کام اس بدمزگی سے پہلے بھی ہو سکتا تھا، مگر ہم انتہا کو چھوئے بغیر کوئی کام کرنے کی جبلت سے ہی عاری ہیں۔اس بات کا حکومت کو بھی احساس ہونا چاہئے کہ وفاقی دارالحکومت کی طرف اپوزیشن بھی لانگ مارچ کی تیاری کر رہی ہے، اگرچہ اس میں ابھی بہت وقت باقی ہے ،مگر دارالحکومت ابھی سے احتجاجی یلغار کا ہدف ہے‘ آئے دن کوئی نہ کوئی گروہ اپنے مطالبات کےلئے ریڈ زون میں مظاہرہ کرتا ہے‘ کبھی پمز کے ملازمین، کبھی اساتذہ اور کبھی وفاقی ملازمین اپنے لیے مراعات کا حق لینے کے لیے شہر اقتدار کے مرکز میں آتے رہے‘ احتجاج کے دوران اپنے اپنے اداروں میں کام بھی بند رکھنے، حتیٰ کہ پمز ہسپتال میں مریضوں کو علاج سے محروم رکھنا بھی اسی ”حق“ کا حصہ رہا۔ یہ سلسلہ آج کا نہیں بلکہ اس دور میں”حقوق“ کے لیے فرائض چھوڑنا اور مظاہرہ، دھرنا دینا ایک روایت بن چکی ہے۔ اسلام آباد کے ریڈ زون کا ڈی چوک ایک مستقل احتجاج گاہ بن چکا ہے اور اسی لئے پارلیمنٹ ہاو¿س کے سامنے بلیو ایریا کی طرف ایک کلو میٹر کا علاقہ حساس قرار دے کر اس کی بڑے گیٹ لگا کر حد بندی کر دی گئی ہے۔ سابقہ حکومت نے تو اس وسیع علاقے کو کھود کر کھنڈر بنا دیا تھا اور یہ راستہ بھی بند کر دیا تھا۔ موجودہ حکومت نے یہ راستہ تو کھول لیا، مگر ایسے لگتا ہے کہ اپنے لیے مشکلات کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اگرچہ محدود احتجاج پر کبھی روڈ رکاوٹ نہیں ڈالی گئی اور چھوٹے مظاہرے اور دھرنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا کر پر امن طور پر منتشر بھی ہوتے گئے لیکن گزشتہ روز سرکاری ملازمین کے ممکنہ دھرنے کو ہر حال میں ناکام بنانے کےلئے انتظامیہ نے آخری حد پار کر دی اور آنسو گیس کا ایسا استعمال کیا کہ ملازمین قدم نہیں جما سکے‘ یہ مظاہرہ اچانک نہیں تھا، بلکہ بہت پہلے اس کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس دوران حسب معمول حکومت نے وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے پر غور شروع کر دیا تھا۔ ایک وزارتی کمیٹی نے مختلف تجاویز پیش کیں، ملازمین کے نمائندوں سے مذاکرات بھی ہوئے لیکن اتفاق نہیں ہو سکا۔ ملازمین اپنی تنخواہوں اور پنشن میں سو فیصد اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں، حکومت کی طرف سے 40 فیصد تک دینے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی۔ اسی لیے بات نہ بن سکی اور پھر وزارت داخلہ نے ممکنہ دھرنے کو روکنے پر سارا زور لگا دیا۔اسلام آباد اگرچہ کشادگی کا حامل شہر ہے مگر کسی ایک چوک میں ٹریفک رک جائے تو سارا شہر جام ہو جاتا ہے۔ عام طور پر حکومت مظاہروں کو روکنے کےلئے راستے بند کر دیتی ہے تو راولپنڈی تک شہری عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ریڈزون میں ہونے والے اس مظاہرے میں، جس میں دونوں طرف سرکاری ملازمین ہی تھے، کلرک پتھراو¿ کر رہے تھے تو سپاہی آنسو گیس پھینک رہے تھے اگرچہ اپوزیشن کی طرف سے مظاہرین کی حمایت کا اعلان کیا گیا تھا لیکن یہ پی ڈی ایم کا مارچ بہرحال نہیں تھا، یہ سرکار کے اپنے بندے تھے ،جو سرکاری پالیسیوں سے پریشان ہوکر اس حد تک پہنچے تھے۔ ان کو مذاکرات اور اشک شوئی کے ذریعے روکا جا سکتا تھا، مگر حکومت نے اشک آور گیس کے ذریعے ان کو روکنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت نے دو بجٹ پیش کئے، مگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا اگرچہ حکومت نے ایک پے اینڈ پنشن کمیشن بنایا ہے جو بجٹ تک اپنی سفارشات پیش کرے گا ،لیکن اس سے زیادہ اچھی توقعات نہیں ہیں اس لیے ملازمین گزشتہ بجٹ کے بعد سے ہی احتجاج کر رہے ہیں اب حکومت بھی حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کچھ عبوری ریلیف دینے کو تیار تھی، لیکن اس کی شرح پر اختلافات تھے ملازمین دھرنا دے کر اپنے مطالبات منوانا چاہتے تھے جبکہ حکومت کسی بھی دھرنے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں اور شاید اس کو روک کر اپوزیشن کے ممکنہ دھرنے کو روکنے کی ریہرسل بھی کی گئی۔