دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ انتخابات کسی طرح کے بھی ہوں اس میں پیسہ بڑا کام کرتا ہے۔ یونین کونسل کے انتخابات ہوں،صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہو ں ، قومی اسمبلی کے انتخابات ہوں یا سینٹ کے انتخابات ہوں ہر جگہ پیسہ بڑا کام دکھاتا ہے۔ یونین کونسل کے انتخابات میں حلقے کے غریب ووٹروں کو اپنی طرف مائل کرنے کےلئے اُن کی مدد کی جاتی ہے ۔ اور جو امیدوار زیادہ خدمت پیش کرے وہ انتخاب جیت جاتا ہے۔ غریب کو تو د وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوتے ہیںاس لئے ان کے ووٹ کی قیمت ایک آدھ دعوت ہی کافی ہوتی ہے مگر کچھ غریب اپنی غربت بھی دو ر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے کہ امیر لوگوں کی جیب سے اپنے لئے کچھ کھسکورنے کا یہی ایک موقع ہوتا ہے کہ جب وہ خود غریب کے دروازے پر حاضر ہوتے ہیں‘مدد کےلئے امیدواروں کے ایجنٹ کام کرتے ہیں اور جب الیکشن ختم ہو جاتا ہے تو پھر غریب کو کوئی نہیں پوچھتا اسی لئے کچھ لوگ اسے موقع سمجھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تاہم جب کچھ لوگ قومی یا صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیت کر جاتے ہیں تو اسمبلی میں مختلف قسم کے انتخابات ہوتے ہیںجن میں الزام لگایا جاتا ہے کہ بعض ممبران بعد ازاں اپنے خرچے کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی جس طرح انتخابی عمل ہوتا ہے اسی طرح پھر اس کے اثرات آگے بھی چلتے ہیں اور اسمبلیوں میں جانے والوں کو جب پھر مختلف اوقات پر اپنی خرچ کردہ رقوم کے وصولی کے مواقع ملتے رہتے ہیں تو پھر وہ ان کو نہیں جانے دیتے۔ دیکھا جائے تو خرابی کی جڑ انتخابی اخراجات میں ہے جن کو کم سے کم کرنا ضروری ہے۔ کروڑں خرچ ہوں گے تو اس کے نتائج بھی مختلف صورتوں میں بھگتنے پڑتے ہیں۔ اسلئے فری اینڈ فئیر الیکشن کا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ یہ پیسے کے اثرات سے پاک ہیں۔۔اب جو سینٹ کے انتخابات آ رہے ہیں تو پھر یہ سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ پیسے کے استعمال کو کیسے روکا جائے۔ سچ یہ ہے کہ سیاست میں حزب اختلاف اور حکومت دونوں کا اہم کردار ہوتا ہے اور اس حوالے سے بھی ان کو مل کراس مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کرنا چاہئے۔ سینٹ الیکشن کیلئے ایسے قواعد وضوابط بنائے جائیں کہ جہاں الیکشن میں پیسے کی ریل پیل کی بجائے اصولوں اور دیانت داری کے تحت فیصلے ہوں۔یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ ہر رکن اسمبلی کی رائے کو بھی وقعت ملنی چاہئے ۔ پارٹی رکنیت اپنی جگہ تاہم ایک رکن کی ذاتی رائے اگر پارٹی پالیسی سے موافق نہیں تو اس کا مطلب یہ ہر گزنہیں کہ وہ خلاف قانون کسی جرم کا مرتکب ہوا ہے۔ جو قانون بننے ہیں وہ حزب اختلاف اور حکومت نے مل کر بنانے ہیں تو اس لئے سیاست کو نیک نامی اور عوام کااعتماد دینے کیلئے ضروری ہے کہ اسے حقیقت میں قابل اعتماد بنایا جائے۔