سینٹ الیکشن کا پراسس شروع ہونے کے بعد، ہر نیا دن ڈرامائی تبدیلی لا رہا ہے سیاسی پارٹیوں کے امیدوار تبدیل ہونے کا سلسلہ تو آخر وقت تک جاری رہتا ہے لیکن کاغذات نامزدگی جمع کروانے میں بھی نئے نئے چہرے سامنے آ ئے ہیں سینٹ الیکشن میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن زیادہ خطرہ حکمران پارٹی کو ہوتا ہے کہ اس کے ارکان باغی نہ ہو جائیں اپوزیشن کو ایسا خطرہ نہیں ہوتا، اس کی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ حکومت اپنے ہر رکن اسمبلی کو وزارت نہیں دے سکتی اور نہ دیگر توقعات پورا کر سکتی ہے‘اس لئے زیادہ ارکان کے گلے شکوے موجود رہتے ہیں، اس کے علاوہ اگرحکمران پارٹی ایسے افراد کو ٹکٹ دیتی ہے، جن کا پارٹی کے ساتھ دیرینہ تعلق نہیں ہوتا توپھر ناراض ممبران اسمبلی اپنی مرضی کر لیتے ہیں ارکان اسمبلی کے احتجان پر حکمران پارٹی بلوچستان اور سندھ میں امیدوار بدل چکی ہے۔ ویسے تمام سیاسی پارٹیاں صوبائی اسمبلی میں اپنی پارلیمانی تعداد سے زیادہ افراد کو سینٹ کا ٹکٹ جاری کر کے، اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ پارٹی سے باہر کے ووٹ بھی خریدنے کی کوشش کریں گی۔ بہرحال سب سے دلچسپ صورتحال اسلام آباد کیلئے مختص نشستوں پر بنتی نظر آ رہی ہے۔ جہاں ایک جنرل سیٹ اور ایک خاتون سیٹ کیلئے قومی اسمبلی میں ووٹنگ ہوگی عام طور پر قومی اسمبلی میں حکمران پارٹی کے امیدوار ہی کامیاب ہوتے ہیں، اپوزیشن صرف رسمی مقابلے کیلئے کوئی مقامی ورکر کھڑا کر دیتی ہے اس بار متحدہ اپوزیشن کی طرف سے پیپلزپارٹی نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ٹکٹ جاری کر دیا ہے‘ جبکہ مسلم لیگ ن نے ایک خاتون کو بھی ٹکٹ دیا ہے سابق صدر آصف علی زرداری کا دعوی ہے کہ وہ قومی اسمبلی سے یوسف رضا گیلانی کو جتوانے کیلئے مطلوبہ ووٹ رکھتے ہیں بلکہ اسی بنیاد پر وہ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد لانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں اب اگر سپریم کورٹ حکومت کی درخواست قبول نہیں کرتی اور آرڈیننس بھی واپس کر دیتی ہے تو الیکشن خفیہ ہوگا اس صورت میں یوسف رضا گیلانی کی جیت کا امکان بڑھ جاتا ہے‘ انہوں نے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت یہ بھی کہہ دیا کہ وہ پیسے دے کر نہیں، بلکہ تعلقات استعمال کر کے ووٹ لیتے ہیں اس پیش رفت سے حکومت کو پریشانی لاحق ہوگئی ہے اگر یوسف رضا گیلانی جیت جاتے ہیں تو یہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کے مترادف ہوگا اور پھر پنجاب میں بھی ارکان اسمبلی پر حکومت اعتماد نہیں کر سکتی۔ جہاں تک قومی اسمبلی کا تعلق ہے تو آصف زرداری ایم کیو ایم کے ووٹ بھی توڑ سکتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے 2018 میں کیا تھا اور سندھ اسمبلی سے دو اضافی سیٹیں حاصل کی تھیں اب اگر انہوں نے ایک بڑی گیم شروع کی ہے تو اس لیے کچھ تیاری بھی کی ہو گی۔اب حکومت کی حکمت عملی کا دارومدار سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہے ہر بار سینیٹ الیکشن کے نتائج امیدوں کے خلاف ہوتے ہیں اس بار کس کی امید ٹوٹتی ہے اور کس کی لاٹری نکلتی ہے، یہ ابھی کسی کو معلوم نہیں۔ ایوان بالا کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہ ملک میں قوانین کی منظوری کا معتبر ادارہ ہے اس لئے جو افراد یہاں آتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ صرف پارٹی وفاداری کو مدنظر نہ رکھیں بلکہ عوامی بہبود اور ان کے مسائل و مشکلات کو کم کرنے کے لئے قوانین کے نفاذ کو اولین ترجیح قراردیں اس وقت سینٹ کے انتخابات کے لئے جو ماحول بنا ہے اس سے کچھ ایسے معاملات سامنے آرہے ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے اور ان میں سب سے اہم انتخابی عمل میں پیسے کی ریل پیل کو ختم کرکے اس طرح ترتیب دینا ہے کہ باصلاحیت افراد ایوان بالا میں جگہ پا سکیں۔