اولڈ بوائز کی آخری ملاقات۔۔۔

 سکول کی بزم ادب کے اجلاسوں میں ہر ہفتے میں” پاگل نگر کی خبریں“ نہایت ریڈیائی انداز میں پڑھا کرتا تھا اور یہ سلسلہ اتنا مقبول ہوا کہ مجھے ”پاگل نگر“ کا خطاب دے دیا گیا اور پھر میرے پیچھے” پاغل ای اوئے“ کے نعرے لگنے لگے تو انہی دنوں بزم ادب کے صدر کیلئے الیکشن کے انعقاد کا اعلان ہوگیا...میں بھی صدارت کیلئے کھڑا ہوگیا اور حزب مخالف نے عمر فاروق مودودی کو بہلا پھسلا کر میرے خلاف الیکشن لڑنے پر آمادہ کرلیا...عمر فاروق‘ مولانا مودودی کا بیٹا تھا اور وہ ایک نہایت شریف الطبع‘ نستعلیق قسم کا بچہ تھا... ہمیشہ صاف ستھرے لباس میں اچکن پہنے ہوئے نہایت دھیمے مزاج کا...ہمیشہ آپ جناب سے مخاطب کرتا...مثلاً اگر میں آدھی چھٹی کے وقت اسے کہتا کہ اوئے عمر فاروق چل یار نان اور چھولے کھاتے ہیں تو وہ کہتا‘ جناب آپ تناول فرما آیئے‘ مجھے بازار کی چیزوں سے پرہیزہے... ہم سب اس کی شرافت کے مداح تھے... البتہ پڑھائی کے معاملے میں وہ خاصا ناتواں تھا‘ مشکل سے پاس ہوتااگر ہوتا...اتنا شریف تھا کہ ماسٹر صاحب کے بید ہاتھوں پر وصول کرتے ہوئے بھی انتہائی تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتا اف تک نہ کرتا...ہم اچھے دوست ہوا کرتے تھے بلکہ ان دنوں مجھے آٹو گراف جمع کرنے کا شوق تھا تو میں نے اسے اپنی آٹوگراف بک دی کہ اس پر اپنے ابا جی کے دستخط کروالانا...مولانا مودودی نے میری آٹوگراف بک کے صفحے پر لکھا” خدا کا خوف ہر نیکی کی جڑ ہے“بہرطور الیکشن ہوئے اور عمر فاروق مودودی مجھ سے بری طرح ہار گیا... میرے سپورٹر جن میں افضل کالیا اور مدھو بالا سرفہرست تھے بے حد متحرک تھے اور خاور زماں جو بعد میں آئی جی سندھ تعینات ہوا اور پھر آسٹریلیا میں ہمارا ہائی کمشنر مقرر ہوا...میرا بہت بڑا سپورٹر تھا...ادھر عمر فاروق کچھ اس طرح سے ووٹ مانگتا کہ دیکھئے حضور اگر ناگوار خاطر نہ گزرے تو اس حقیر پر تقصیر کو ووٹ عنایت کر دیجئے گا اور اگر آپ ووٹ نہ دینگے تو واللہ آپ سے کچھ شکایت نہ ہوگی...اب آپ ہی بتایئے اس طرح ووٹ ملتے ہیں...بہرحال مودودی نے فراخ دلی سے شکست تسلیم کرلی اور مجھے مبارکباد دی...غالباً یہ اس کا پہلا اور آخری الیکشن تھا...اگرچہ مجھے 70ءکے الیکشنوں کے دوران ایک پارٹی کی جانب سے نیشنل اسمبلی کا ٹکٹ آفر کیاگیا لیکن میں نے معذرت کرلی کہ بھئی میں تو شریف آدمی ہوں...ازاں بعد حلقہ ارباب ذوق لاہور کے الیکشن میں امیدوار ہوا اور سیکرٹری منتخب ہوگیا اور یہ میرا آخری الیکشن تھا‘ اولڈ بوائز کےساتھ گپ شپ کے دوران عمر فاروق مودودی اور میرے درمیان الیکشن کے قصے بھی چھڑ گئے...مدھو بالا کہنے لگا ”ویسے یار کچھ پتہ ہے کہ عمر فاروق ان دنوں کہاں ہے...اگر ہے تو...“ اس پر کسی نے کہا” شنید ہے کہ اس نے عربی میں ایم اے کیا اور کسی زمانے میں مدینہ منورہ میں پڑھاتا تھا...ان دنوں جانے کہاں ہے۔عمر فاروق مودودی کی باتیں ہوئیں تو کسی نے شجاع کا قصہ چھیڑ دیا اور پھراس کے حوالے سے اپنی یادوں کی قبرستان میں اترگئے...کسی نے صلاح الدین شیخ کے بارے میں پوچھا...وہ میرا بہت قریبی دوست ہوا کرتا تھا اور اس کی زندگی کی کہانی بھی بہت حیرت بھری ہے‘ کبھی پھر سہی...میں نے انہیں بتایا کہ صلاح الدین کو مرے ہوئے بھی ایک مدت ہو چکی ہے... ابھی سب اولڈ بوائز چہک رہے تھے‘ بچوں کی طرح خوش ہو رہے تھے‘ بلکہ ایسا لگتا تھا کہ ہم سب پھر سے بچے ہوگئے ہیں...سکول سے فارغ ہو کر گول باغ میں گپیں لگا رہے ہیں اور ابھی ہم گھر چلے جائیں گے جہاں امی جان فکر مند ہو رہی ہوں گی کہ مستنصر کو بہت دیر ہوگئی ہے‘ ابھی تک آیا نہیں‘ کسی ملازم کو روانہ کر دیں گی کہ پتہ کرو سکول جاکر معلوم کرو کہ کتنے بجے چھٹی ہوتی تھی اور ہم اس سراب میں بہت دیر مبتلا رہے اور جب اس سے باہر آئے تو پھر بوڑھے ہو چکے تھے‘ ماں باپ کب کے مرچکے تھے‘ اب گھر میں کسی کو بھی ہمارا انتظار نہ تھا...وہ جو بچھڑ گئے تھے ہمارے کلاس فیلو مرچکے تھے ان کی یاد میں ہم پہلے تو آزردہ ہوئے اور پھر سب کے اندر موت کی آہٹ سنائی دینے لگی کہ ہم سب زندگی کے آخری برسوں میں تھے‘ ہم نے اپنی آخری کار خرید لی تھی‘ کہ اب نئے ماڈل تک کون جانے کیا ہو...اور کون جانے اگلی بار ہم میں سے کس نے غیر حاضر ہونا تھا‘ اپنے رب کے پاس حاضر ہونا تھا...ویسے ہم سب اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوئے کہ اس نے یہ زندگی عطا کی‘ اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا...اولاد سے نوازا...کبھی بھوکا نہ رکھا‘ رہنے کو گھر دیا‘ پہننے کو لباس دیا‘ اتنا کچھ دیا کیا کیا نہ دیا...پر ہم نے اتنا شکر ادا نہ کیا جتنا ہم پرواجب تھا...ہم کیسے قسمت والے تھے کہ تقریباً ساٹھ برس بعد پھر سے اکٹھے ہوگئے تھے...اولڈ بوائز ہوگئے تھے...ہم ایک دوسرے سے رخصت ہوئے تو ایسے رخصت ہوئے جیسے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو رہے ہوں۔