ایک قومی المیہ۔۔۔۔۔۔

حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ‘تین با وزیراعظم رہنے والے نوازشریف کا برطانیہ میں خود ساختہ جلاوطنی کے دوران پاسپورٹ ایکسپائر ہو گیا ہے۔ بیرون ملک خود ساختہ جلا وطنی کی مثالیں دنیا میں کم ہی ملتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں یہ ایک مروجہ فارمولا بن چکا ہے۔دنیائے سیاست میں ایک ایسا وقت بھی وطن عزیز میں گزرا ہے کہ اس روش کا تصور تک نہیں تھا، حکومت میں ہیں یا حکومت سے باہر ، ملک سے باہر جانے کا طریقہ رائج نہیں تھا۔ ا س کی شاید بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری اکثر حکومتی شخصیات بیرون ملک اثاثہ جات رکھتے ہیں اور کچھ کی تو دہری شہریت بھی ہوتی ہے۔ اس لئے تو جب بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور حکومتی مراعات سے محروم ہوتے ہیں تو ان کو باہر جانے میں عافیت نظر آتی ہے ۔یہ تذکرہ کسی ایک شخصیت کا نہیں ہو رہا بلکہ ایک عام رویے کی بات ہورہی ہے ۔ جن شخصیات کا اپنے وطن اور ملک سے رشتہ ہوتا ہے، وہ ہر حال میں وطن کی مٹی کے ساتھ جینا اور مرنا قبول کرتے ہیں۔ افغانستان کے سابق صدر نجیب اللہ سے نظریاتی اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اس کو معزولی کے بعد سوویت یونین کے وزیرخارجہ نے پیشکش کی تھی کہ تمہارے لیے یہاں خطرہ ہے، ماسکو میں گھر تیار ہے، خاندان کے ساتھ وہاں منتقل ہو جاو¿۔مگر زندگی کو لاحق خطرات کو جانتے ہوئے بھی نجیب اللہ نے افغانستان کو چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا اور اس کی بیوی نے کہا تھا کہ ہم ماسکو جانے سے زیادہ اپنے گھر کی دہلیز پر مر جانا بہتر سمجھتے ہیں بعد میں جو ہوا وہ افسوسناک تاریخ ہے لیکن ہماری سیاست میں گزشتہ تین دہائیوں سے یہ روایت بن چکی ہے کہ ملک میں صرف اقتدار کےلئے ہی رہنا ہے۔ اولاد اور کاروبار دوسرے ممالک میں رکھنے اور خود بھی حسب ضرورت وہاں رہ کر سیاست کرنے کو کامیاب حکمت عملی سمجھا جاتا ہے۔اب حالت یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم اب وہ پاسپورٹ میعاد ختم ہونے پر بے ریاست شہری بن چکے ہیں، لیکن پاکستان کی سیاست میں آج بھی وہ سب سے زیادہ فعال اور سرگرم شخصیت ہیں ۔ان کو توقع ہے کہ حکومت تبدیل ہوئی تو ان کی سزائیں بھی ختم ہو جائیگی اور مقدمات بھی ایسا 2000 میں ہو چکا ہے، جب وہ پرویز مشرف سے معاہدہ کر کے سعودی عرب گئے تھے تو ان کی سزائیں اور مقدمات بھی ختم ہوگئے تھے ہمارے حکمرانوں کا یہی رویہ ہے۔ قانون واضح ہے کہ کوئی رکن پارلیمنٹ یا حکومتی عہدہ دار الیکشن مہم میں شریک نہیں ہو سکتا، مگر اس کی بھی خلاف ورزی کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔الیکشن کمیشن نوٹس ہی جاری کرتا رہتا ہے ، قانون کی پاسداری نہ کرنے کی یہ ایسی بیماری ہے جو اوپر سے نیچے تک آتی ہے، کرپشن اور لوٹ مار بھی اسی کا ایک پہلو ہے اگر وہ طبقہ خود آئین پر مکمل عمل کرے جو انہوں نے خود بنایا ہے تو نیچے تک اس کا اثر ہوگا۔قانون کی پاسداری یوں تو سب پر لازم ہے تاہم اس عمل کو اگر صاحب اختیار اپنے آپ پر لازم کریں تو ا س سے معاشرے میں قانون کی قدر ومنزلت بڑھتی ہے ۔اور دیکھا جائے تو قانون کی پابندی کرنے سے کوئی انسان چھوٹا نہیں بنتا بلکہ اس میں بڑھائی اور عزت و اکرام ہے ۔باہر کے ممالک میں چاہے سڑک پر لاگو ٹریفک قواعد کی پاسداری ہو یا پھر دیگر قوانین کی ، ہر چھوٹا بڑا اس پر عمل کرتا نظر آتا ہے یہی ان ممالک کی ترقی اور دنیا پر حکمرانی کا راز ہے اور ہمارے ہاں اگر پہلے کے ادوار میں ایسا طرز عمل کبھی تھا بھی تو اب وہ ناپید ہو چکا ہے۔ دیکھا جائے تو سیاست میں اقدار اور اصولوں کی پاسداری وہ جوہر ہیں جو دیکھنے میں نہیں آرہے اور جس کی اس وقت بہت ضرورت ہے کیونکہ ملکی مسائل اور مشکلات کا حل اہل سیاست نے ہی نکالنا ہے اور چاہے ان کا تعلق حزب اختلاف سے ہو یا حزب اقتدار سے دونوں کو اہم کردار ادا کرنا ہے اس ضمن میں تحمل برداشت اور ایک دوسرے کی رائے کو وقعت دینا بھی اہمیت رکھتا ہے۔