کسی بھی جمہوری طرز حکومت میں انتخابات کاکلیدی کردار ہوتا ہے اور ا سکی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ تاہم اس عمل کو صاف و شفاف اور کم خرچ بنانا ضروری ہے۔ موجودہ د ور میں یہ مرحلہ جس قدر مہنگا اور مشکل ہو گیا ہے اس میں عام آدمی کیلئے حصہ لینے کا تصور تک ختم ہوگیاہے۔حکومتیں بنانے کے لئے ہر پانچ سال بعد ( اگر درمیان میں کچھ ہو نہ جائے تو) عوام ووٹو ںکے ذریعے اپنے نمائندے چنتے ہیں۔یہ نمائندے خاص آئین یا وعدوں کو ووٹر کے سامنے رکھتے ہیں ۔ عوام کا سچ کی تلاش کا یہ عمل خلوص پر مبنی ہو تا ہے۔ وہ امیدوارو ںیا پارٹی کے آئین یا وعدوں کو سچ مان کر ووٹ دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا نظام ایسا ہے کہ جو شخص یا پارٹی انتخابات میں حصہ لیتی ہے وہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔پیسہ اس لئے بھی خرچ ہوتا ہے کہ امیدواروں کو ایک بڑے حلقے میں اپنے لئے ووٹ مانگنے کے لئے جانا پڑتا ہے اور یہ کوئی شخص پیدل نہیں کر سکتا اسلئے کہ حلقے اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان میں سب لوگوں تک پہنچنے کےلئے ٹرانسپورٹ کا اہتمام کرنا ہوتاہے اور جو لوگ آپ کے پاس آتے ہیں ان کے طعام و قیام کا بھی بندوبست کرنا ہو تاہے اور یہ سب کچھ مفت میں نہیں ہو سکتا اس کےلئے بہر حال امیدوار کو کھیسا ڈھیلاکرنا پڑتاہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک وہ نظام نہیںآ سکا کہ لوگ پارٹی کو ووٹ کریں او ر پارٹی اپنے قابل لوگوں کو حکومت میں لے کر آئے۔ اس میں افراد کو دیکھنا ہوتا ہے چاہے وہ پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہوں یا وہ اپنے طرز پر انتخاب میں حصہ لے رہے ہوں ۔ جہاں تک پارٹی کا تعلق ہے توٹکٹ تو دیتی ہے مگر اس کے بعد امیدوار کی اپنی محنت ہے کہ وہ کس طرح اپنے لئے ووٹ حاصل کرتا ہے اس لئے کہ پارٹی کے امیدوار کو بھی اس وقت تک ووٹ نہیں ملتے کہ جب تک وہ خود ہر دورازہ نہیں کھٹکھٹا تا۔ یعنی ہر صورت میں کسی بھی امیدوار کو اپنے خرچے پر انتخابات میں حصہ لینا پڑتا ہے۔ یہ خرچہ اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے کہ جتنا بڑاکوئی حلقہ ہوتا ہے ۔ میدانی علاقوں کی بات تو ایسی ہے کہ آپ کو ٹریفک کا بھی مسئلہ نہیں ہوتا اور ہر امیدوار اپنے حلقے کی ووٹروں سے آسانی سے مل سکتا ہے مگر پہاڑی علاقوں میںیہ کام ذرا مشکل ہوتا ہے۔ بہت سے گاو¿ں ایسے ہوتے ہیں کہ جہاں پرگاڑی کا پہنچنا ناممکن ہوتا ہے اس لئے امیدوار کو پیدل ہی وہاں تک جانا اور اپنے لئے ووٹ مانگنا پڑتا ہے جو کتنا مشکل ہے وہ ایسے امیدوار بہتر بتا سکتے ہیں کہ جن کو اپنی کنویسنگ کے دوران اس صورت حال سے پالا پڑا ہے ۔ اس طرح کے حالات سے دوچار ہو کر کوئی امیدوار اسمبلی تک پہنچتا ہے ۔ اور ہمارے ہاںاسمبلی تک پہنچنے کےلئے کوئی بھی امیدوار لوگوں سے وعدے کرتا ہے کہ وہ اپنے ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ لے کر اسمبلی میں جا رہاہے ‘مگر بعد میں یہ جذبہ نظر نہیں آتا۔ اگر ہمارے ہاں انتخابات کو اتنا آسان بنا دیا جائے کہ اسمبلی تک عام آدمی پہنچ سکے اور اسکے لئے پیسے کا خرچہ نہ ہو تو امید ہے ہ ملک سے کرپشن کاخاتمہ ہو جائے گا۔جب کوئی بھی رکن اسمبلی پیسہ خرچ کرنے کے بعداسمبلی میں پہنچتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ پہلا کام تو یہی کرے گا کہ اپنا خرچہ پورا کرے اور اس کےلئے عوامی بہبود کے کاموں پر توجہ دینے کا کم ہی وقت ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمارے ممبران اسمبلی کو ملک کو آگے لے جانے کا کبھی وقت ہی نہیں ملا اور نہ ہمارے اراکین کو کبھی یہ وقت ملا ہے کہ وہ جیتنے کے بعد ان لوگوں سے بھی ملیںکہ جنہوںنے اُن کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔ اگر ایسا ہو کہ ہمارے اراکین اسمبلی کو ایسا وقت مل جائے کہ وہ اپنے ووٹروں سے بھی مل سکیں اور ان کی ضروریات کو جان سکیں تو ملک میں ترقی کا دروازہ کھل سکتا ہے‘ یعنی ووٹر اور امیدوار کے درمیان قریبی رابطہ جس طرح الیکشن کے دنوں میں ہوتا ہے اسی طرح انتخابات کے بعد بھی رہنا چاہئے۔