سیاست اور وکالت کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ جو مسئلہ لڑائی جھگڑے سے حل نہ ہو سکے، اس کو باتوں اور دلائل کے ساتھ حل کیا جائے، اور دوسرے کا موقف سن کر اپنی غلطی کو تسلیم کیا جائے اسی رویے کومزید پھیلائیں تو یہ سفارتکاری بھی بن جاتی ہے، جس کے ذریعہ ملکوں کے درمیان جنگوں کو روکا جاتا ہے، اس کے علاوہ ان پیشوں کی کوئی تشریح نہیں ہو سکتی مگر ہمارے ہاں اب سیاست اور وکالت کے ایسے نئے مفاہیم اور انداز سامنے آرہے ہیں کہ جس سے طاقت کے زور پر اپنی بات منوانے کی رسم رہ گئی ہے. وکالت کے پیشے کا حسن یہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اتنی خوبصورتی کے ساتھ پاکستان کا مقدمہ لڑا کہ انگریز اور ہندو بھی موقف تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے، اور سیاست کا کمال یہ ہے کہ قائد اعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے پاکستان کے حق میں ووٹ کی طاقت بنا دیا تاریخ شاہد ہے کہ تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم کی قیادت میں کسی موقع پر بھی تشدد نہیں ہوا ،بلکہ تقسیم کے بعد دو طرفہ ہجرت اور نقل مکانی کے دوران تشدد اور فسادات ہوئے قائداعظم کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ اپنے طویل کیریئر کے دوران کبھی نہ تو قانون شکنی کا الزام لگا اور نہ ہی کبھی جیل گئے پاکستان کے اہل سیاست اور وکالت کےلئے قائداعظم ایک رول ماڈل ہیں اور ہونے بھی چاہئے، لیکن کچھ عرصہ سے دونوں شعبوں میں عدم برداشت اور تشدد شامل ہو گیا ہے ‘ گزشتہ دنوں ایسا ہی مظاہرہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی ہوا ، جہاں چیف جسٹس کے چیمبر میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ یہ معاملہ ابھی عدلیہ کے پاس ہے اور اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں میں وکیل ہڑتال پر ہیں‘ جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو عدم برداشت اور سیاست میں "سب جائز ہے" کی منطق 1990 کی دہائی میں داخل ہوئی، جب سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی سمجھ کر مخالفین کے ساتھ سلوک برتا گیا ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنا کر جیلوں میں ڈالنا اور مالی و اخلاقی طور پر تباہ کرنا سیاسی حکمت عملی قرار پائی اور یہ رجحان قیادت سے نیچے کارکنوں تک پھیلتا گیا جس سے پارٹی کے ورکروں میں بھی اشتعال اور عدم برداشت پیدا ہوگیا بلکہ سیاسی قیادت نے اپنے کارکنوں کو مخالفین کے خلاف بھڑکانے میں جلتی پر تیل کا کردار ادا کیا اس کے نتیجے میں الیکشن مہم دن بدن خطرناک ہوتی گئی اور پولنگ کے موقع پر کئی مقامات پر لڑائی جھگڑے ہوتے اور کئی اچھے کارکنوں کی موت بھی ہوتی رہی‘ گزشتہ دنوں سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ضمنی الیکشن ہوئے جن میں دونوں طرف سے اسلحہ کی نمائش ہوتی رہی‘ کراچی میں پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی کو ہنگامہ آرائی کے الزام میں گرفتار کیا گیا جبکہ پنجاب ضلع سیالکوٹ کے ایک حلقے میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں تصادم سے دو افراد مارے گئے جبکہ کئی زخمی ہوئے‘ اب یہ بحث ہی غلط ہے کہ مرنے والے کس پارٹی سے تھے، کیونکہ وہ پاکستانی شہری تھے اور سیاسی عمل میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے تھے‘ جمہوریت نام ہی اکثریت کے فیصلے کو قبول کرنا اور اپنی باری کا انتظار کرنے کا ہے ضمنی انتخابات کے نتائج اپوزیشن کے لیے حوصلہ افزا ہیں، اور ان کو بہت بڑی تعداد میں ووٹ ملے ہیں سندھ میں تو تین نشستیں پی ڈی ایم کی جماعتوں نے جیت لیں، کرم میں پی ٹی آئی جبکہ نوشہرہ میں نون لیگ جیت گئی سب سے بڑی کامیابی پنجاب میں نون لیگ کو ملی ہے۔ اپوزیشن احتجاج کرے مگر حکومت کو بھی مدت پوری کرنے دے‘ سیاست میں تشدد اور دوسرے کی رائے کو قبول نہ کرنا یقینا ایک ایسا رجحان ہے جس کی حوصلہ شکنی ہر سطح پر ضروری ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر پارٹی کے کارکن اپنی قیادت کی پیروی کرتے ہیں اور ان کو رول ماڈل سمجھ کر رویئے اپناتے ہیں اس لئے اگر سیاست سے تشدد کا خاتمہ کرنا ہے تو اس میں اولین ذمہ داری سیاسی قائدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ سٹیج پر آ کر اپنے الفاظ اور رویوں پر نظر رکھیں اور یہ احساس ضرور کریں کہ ان کے کارکنان کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔