ہم پاکستانی بھی عجیب قوم ہیں۔جب بھی انتخابات کا موسم آتا ہے تو ہم اپنے امیدواروں کے حق میں دیوانے ہو جاتے ہیں۔ اس دیوانگی میں بہت کچھ ہو جاتا ہے۔ جب تک انتخابات ہو نہیں جاتے اور ان کے نتیجے میں کوئی ایک شخص یا کوئی پارٹی جیت یا ہار نہیں جاتی ہم ایک مرنے مارنے پر تیار نظرآتے ہیں ۔ صرف تیار ہی نظر نہیں آتے بلکہ اس کو عملی جامہ بھی پہنانے میں دیر نہیں کرتے۔ کوئی بھی انتخابات کا مرحلہ لے لیں اس میں جو جوش و خروش کسی بھی امیداوار کے حامیوں کا ہوتا ہے وہ خود امیدوا رکا بھی نہیں ہوتا ۔ اور ہم اپنے امیدوار کے حق میں اس قدر دیوانے ہو جاتے ہیں کہ مخالفین کی جان لینے سے بھینہیں چوکتے ۔ کئی اموات محض اس لئے ہو جاتی ہیں کہ کوئی شخص ہمارے امیدوار کے مخالف ہوتا ہے۔ ہم نے انتخابات کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا ہوتا ہے حالانکہ یہ ایک شخص کے جیتنے یا ہارنے کی بات ہوتی ہے۔جب دو شخص ایک سیٹ کے لئے امیدوار ہوتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ایک جیتے گا اور ایک ہارے گا۔ ہم ہار کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ ایک سیٹ پر اگر دو یا دو سے زیادہ امیدوار ہیں تو ظاہر ہے کہ ان میں جیتنے والا تو ایک ہی ہو گا۔ مگر ہم یہ چاہیں گے کہ جیتنے والا امیدوار وہی ہو جس کی ہم حمایت کر رہے ہیں۔ اور یہ چاہت اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ ہم دوسرے کی جیت کو سننا بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا امیدوار ہار بھی سکتا ہے مگر ہم اُس کی جیت کو ہی دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی یہ کہ دے کہ تمہارا امیدوار ہار سکتا ہے۔ اس پر بھی جھگڑے ہوتے ہیں اور یہ جھگڑے صرف زبانی کلامی ہوں تو الگ بات ہے مگر اس پر قتل مقاتلے بھی ہو جاتے ہیںاور ہوئے ہیں۔ امیدوار اپنی جگہ بیٹھے ہوتے ہیںاور حامی ایک دوسرے کا سر پھوڑ رہے ہوتے ہیں ۔ اور جب کوئی امیدوار جیت جاتا ہے تو وہ مڑ کر بھی نہیں دیکھتا کہ اُس کے حامی یا اُس کے ووٹر کس حال میں ہیں۔ہم نے بی ڈی الیکشنوں میں یہ دیکھا ہے کہ جن لوگوں نے ایک امیدوار کےلئے جد جہد کی اور اپنے رشتہ داروں کی مخالفت مول لی اُس نے جیت جانے کے بعد ہمیں دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا اور اس کو ہم سے ملنے کا وقت ہی نہیں ملتا ۔تب ہم اپنے دیوانہ پن کو کوستے ہیں کہ کیوں ہم نے اس شخص کےلئے اتنی جدوجہد کی ۔ ہم نے پہلے بی ڈی الیکشنوں میں دیکھا ہے کہ اس میں چونکہ حلقہ انتخاب ہمارے اپنے ہی گوٹھ گاو¿ں تھے اس لئے ہم نے ایک شخص کےلئے اپنے رشتہ داروں اور اپنے گرائیوں سے رشتے ناطے توڑے اور اپنی رشتہ داریوں میں رخنے ڈالے مگر اُس شخص نے جیتنے کے بعد ہمیں منہ تک لگانا بھی گوارہ نہیں کیا۔ ہماری ہندکو کے ایک محاورے کی طرح ہم یاروں بھی گئے اور منڑسوں بھی گئے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے گاو¿ں میں پہلے بی ڈی الیکشنوں کے بعد ، کہ جن کی بنیاد ایواب خان کی حکومت میںپہلی بار رکھی گئی تھی، اس میںہمارے گاو¿ں میں جو رخنہ پڑا وہ اب تک قائم ہے۔ اس الیکشن سے قبل ہمارا گاو¿ں ہماری نظر میں ایک مثالی گاو¿ں تھا کہ جس میں پورا گاو¿ں ایک برادری میں پرویا ہوا تھا اور سب ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے ۔ اس بی ڈی الیکشن کے بعد ہمارے گاو¿ں میں جو رخنہ پڑا اب تک ختم نہیں ہو پایا۔ اسی طرح ہر گاو¿ں میں یہی کچھ ہوا اور ایسے جنبے پڑے کہ ایک دوسرے کا غم بانٹنے والے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ اس لئے کہ ہم لوگوں نے الیکشن کا مطلب ہی نہیں سمجھا۔ ہم یہی سمجھتے رہے کہ سارا گاو¿ں ایک ہی ہستی کو ووٹ کرے گا اور جب وہ ہستی کامیاب بھی ہو گئی تو کہا گیا کہ فلاں فلاں نے ہمیں ووٹ نہیں دیا اور بس ۔