سمجھ سے بالا ترمعاملہ


 ایک زمانے سے انتخابات میں دیکھ اور سن رہے ہیں کہ جو بھی پارٹی یا امیدوار ہار جاتا ہے تو وہ پہلا کام یہ کرتاہے کہ ا لیکشن میں دھاندلی کا الزام لگاتا ہے۔ ہم نے بھی بہت سے انتخابات کنڈکٹ کئے ہیں اور یہ الزام بھی بھگتا ہے کہ ہم نے انتخابات میں دھاندلی کی ہے۔ اب ہمیں یہ کبھی معلوم نہیں ہو سکا کہ ایک پریزائیڈنگ افسر یا ریٹرننگ افسر دھاندلی کیسے کر سکتا ہے۔ اسلئے کہ انتخابات کے دن ایک بہت سے لوگوں کے درمیان گھر اہوتا ہے اسمیں امیدواروں کے ایجنٹ بھی ہوتے ہیں کہ جو ایک ایک غلطی کی نشان دہی کرتے ہیں بلکہ نہ صرف نشان دہی کرتے ہیں بلکہ اس غلطی کو دور کروا کے چھوڑتے ہیں۔ شام کو جب گنتی کا عمل شروع ہوتا ہے تو سارے امیدو اروں کے ایجنٹ گنتی کے عمل میں شریک ہوتے ہیں اور کسی بھی غلط ووٹ کو شمار میں آنے نہیں دیتے۔ پھر جب پولنگ افسر سارے کاغذات تیار کرتا ہے تو ایجنٹ سارے کاغذوں کی تصحیح پر دستخط کرتے ہیں اور پھر پولنگ کی فائنل گنتی میں سارے امیدواروں کی سامنے باہر سے آئے ہوئے بیگوں کو کھولا جاتا ہے اور ان کے سامنے سارے ووٹوں کی گنتی کی جاتی ہے اور عتراضات کو دور کیا جاتاہے اور آخر میں فائنل نتیجے کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں امیدواروں کے ایجنٹ ہر گنتی میں حاضر ہوتے ہیں اور سارے نتائج ایجنٹوں کے دستخطوں کے ساتھ فائنل فیصلوں کا اعلان کیا جاتا ہے اور یہ ریزلٹ ہر امیدوار کے ایجنٹ کو دیا جاتاہے اور پھر جا کے کہیں فائنل نتیجے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ہر سٹیشن کا نتیجہ امیدواروں کے ایجنٹوں کا بتا کر دیا جاتا ہے اور اس پر سارے ایجنٹوں اورپولنگ افسر کے دستخط ہوتے ہیں اور پھر یہ سارے نتائج آخر میں دوبارہ امیدواروں کی یا ان کے ایجنٹوں کی موجودگی  میں مختلف سٹیشنوں سے آئے ہوئے لفافے کھول کر امیدواروں یا ان کے ایجنٹوں کے موجودگی میں فائنل گنتی کی جاتی ہے اور ان کے نتائج پر سارے امیدواروں یا ان کے ایجنٹوں کے دستخطوں کیساتھ فائنل نتیجے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس سارے عمل میں امیدوار ں یا ان کے ایجنٹ موجود رہتے ہیں اور ایک ایک بات پر اعتراض کرتے ہیں اور ان کے اعتراضات دور کر کے فائنل ریزلٹ کا اعلان ہوتا ہے۔ اسکے باوجود لوگ اعتراضات لئے عدالتوں میں چلے جاتے ہیں۔ کوئی بھی امیدوار اپنی ہار کو تسلیم کرنے کو تیا ر نہیں ہوتا۔جب کہ سارا عمل اُن کی موجودگی یا ان کے ایجنٹوں کی موجودگی میں عمل میں لایا جاتا ہے۔ اسکے بعد جو اعتراض ہوتے ہیں ان کی ہمیں کبھی سمجھ نہیں آتی۔ پولنگ کا عملہ سرکاری ملازمین پر مشتمل ہوتا ہے جن کا کسی بھی امیدوار وں سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ اسکے باوجود نتائج پر اعتراضات ہوتے ہیں اور عملے کو ملوث کیا جاتا ہے۔ جب کہ عملے کا نہ توکسی سے رشتہ ہوتا ہے اور نہ ووٹوں کی گنتی میں کوئی دھاندلی کی جا سکتی ہے اسلئے کہ یہ سارا عمل امیدواروں یا اُن کے ایجنٹوں کی موجودگی میں ہوتا ہے اور ہر کاغذ پر پولنگ افسر ایجنٹوں یا امیداروں کے دستخطو ں سے تیار ہوتا ہے۔ اسکے بعد ان نتائج پر اعتراضات کی ہمیں تو کبھی سمجھ نہیں آئی۔ ہم بہت دفعہ پولنگ افسر کے طور پر ڈیوٹی دے چکے ہیں اور اس میں ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی بھی پولنگ افسر چاہتا ہو تو بھی کوئی دھاندلی نہیں کر سکتا۔ اسلئے کہ الیکشن کے شروع ہونے سے ریزلٹ کی تیاری تک ہر لمحے میں امیدواریا ان کے ایجنٹ پولنگ افسر کے سر پر سوار ہوتے ہیں اسلئے دھاندلی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ پولنگ افسر جو نتائج تیا ر کرتا ہے وہ سب کے سامنے ہوتے ہیں ان پر ہر امیدوار یا اس کے ایجنٹ کے دستخط ہوتے ہیں مگر اسکے باوجود ہارنے والا امیدوار پولنگ کے عملے پر معترض ہوتا ہے جو ہماری سمجھ سے ہمیشہ ہی باہر رہاہے۔ ہم نے جتنے بھی الیکشن کنڈکٹ کئے ہیں ان میں تو ہم نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ پولنگ کا عملہ کوئی دھاندلی کرتا ہو مگر اعتراض ہمیشہ عملے پر ہی کیا جاتا ہے۔اصل میں ہم ہار ماننا ہی نہیں چاہتے۔