امریکہ میں جب بھی حکومت تبدیل ہوتی ہے، ضروری نہیں کہ قومی پالیسیاں بھی بدل جائیں لیکن چار سال پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو اتھل پتھل کر کے رکھ دیا تھا اور اس کی تلافی کیلئے، نئے آنے والے صدر جو بائیڈن کو بڑی تبدیلیاں کرنا پڑ رہی ہیں ٹرمپ نے تو اپنے ہمسایہ ممالک اور یورپ کے ساتھ بھی تعلقات منقطع کر دئیے تھے، جن کو بائیڈن بحال کرنے میں لگے ہیں، لیکن سب سے بڑی تبدیلی مشرق وسطیٰ میں نظر آرہی ہے ٹرمپ نے اپنے دور میں سعودی عرب اور اس کی اتحادی عرب ریاستوں کے ساتھ بہت اچھے مراسم رکھے تھے‘ ٹرمپ کے دور میں سعودی عرب میں ولی عہد محمد بن سلمان نے عملی طور پر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، ٹرمپ نے اس کو قبول کیا اور تمام رابطے شہزادہ محمد بن سلیمان کے ساتھ ہی رکھے اس دوران سعودی عرب کے قطر کے ساتھ تعلقات اس حد تک خراب ہوگئے کہ سرحدیں اور فضا بھی بند کر دی گئی۔ ساتھ ہی ٹرمپ کے اقتدار کے آخری دنوں میں عرب ریاستوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کی شروعات ہوئیں۔ سب سے اہم متحدہ عرب امارات کا فیصلہ تھا، اس کے بعد بحرین اور عمان نے بھی اس کی پیروی کی اگرچہ ان ریاستوں نے سعودی عرب کی مرضی اور رضا مندی سے ہی یہ فیصلہ کیا، لیکن خود سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان ابھی تک نہیں کیا دوسری طرف متعدد عرب ریاستوں کے فیصلے کے باوجود اسرائیل نے فلسطین کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیاں آباد کرنے اور فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ جاری رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ عربوں کے اس فیصلے کی وجہ سے ٹرمپ کو زیادہ ووٹ ملے اور اسے نوبل امن پرائز کیلئے نامزدگی ملی، مگر جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی سعودی عرب کے ساتھ سردمہری برتنی شروع کر دی شاید یہ بات عرب دنیا اور ایران کے لیے بھی حیران کن تھی کہ امریکہ نے یمن کے باغی حوثی قبائل کو دہشتگردوں کی فہرست سے نکالنے اور ان پر پابندیاں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، سعودی عرب کیلئے یہ ایک بڑا جھٹکا ہے۔ اس کے بعد اعلی سطح کے رابطے صرف شاہ سلمان کے ساتھ رکھنے اور ولی عہد شہزادہ محمد کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ بھی خوشگوار نہیں تھا، اور اس کے ساتھ یمن کی لڑائی میں سعودی عرب کو امریکہ کی طرف سے اسلحہ کی فراہمی روکنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ سنا ہے کہ ترکی میں سعودی قونصل خانے میں سعودی صحافی جمال خشوگی کے مبینہ قتل کی نئے سرے سے تحقیقات کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے، یہ تمام امریکی فیصلے سعودی عرب کے لیے مایوس کن ہیں۔ اگرچہ پاکستان کی حکومت اور عوام کو سعودی عرب اور دیگر ریاستوں سے ہمدردی ہے، تو ساتھ ہی ایران کے ساتھ بھی اچھے مراسم کی خواہش ہے لیکن ٹرمپ کے دور میں سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ بڑی حد تک سرد مہری روا رکھی‘ کشمیر پر بھی بھارتی اقدامات کی مذمت نہیں کی گئی جبکہ پاکستان کی مخالفت کے باوجود بھارت کو اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے اجلاس میں بطور مبصر شرکت کی دعوت دے دی۔ ایک طرف بھارت میں سرمایہ کاری شروع کر دی تو دوسری طرف پاکستان کو دئیے گئے دو ارب ڈالر واپس مانگ لئے پاکستان نے چین کی مدد سے ایک ارب ڈالر تو واپس کر دئیے لیکن جب سے امریکہ میں حکومت تبدیل ہوئی ہے سعودی عرب کا پاکستان کے بارے میں رویہ بھی تبدیل ہو رہا ہے اب نہ صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی ایک ایک ارب ڈالر کی واپسی ایک سال کیلئے موخر کر دی ہے، ان ممالک میں پاکستانیوں کے ساتھ سلوک بھی بہتر ہوگیا ہے یہ اچھی علامات ہیں اور ہمارے عرب بھائیوں کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ امریکہ اور یورپ اس وقت تک دوست رہتے ہیں، جب تک ان کا مفاد پورا نہ ہو عرب ممالک بھاری مقدار میں جنگی سامان بھی خرید چکے اور اسرائیل کو تسلیم بھی کر لیا، اس لئے عربوں کے مزید ناز اٹھانے کی ضرورت نہیں، اس کے برعکس سعودی عرب کے دفاع کیلئے پاکستان سے زیادہ کوئی ملک قابل اعتماد نہیں ہوسکتا۔ ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات بحال کرنے کی پاکستان کی خواہش عرب دنیا کے مفاد میں بھی ہے لیکن امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اپنا اسلحہ فروخت کرنے کیلئے عربوں کو تنازعات میں الجھائے رکھا ہے۔ اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ روابط بڑھائیں اور دونوں ممالک زمینی حقائق اور دیرینہ تعلقات کو دیکھتے ہوئے نئے سرے سے دوستی اور بھائی چارے کو فروغ دیں۔