اے وطن، پیارے وطن۔۔۔۔

میں نے اکثر تنہا سفر کیا جس میں کوئی ہم سفر نہ تھا اور ایسے منظر دیکھے جس طرح کے منظر کبھی دیکھے نہ تھے...اس جنوں خیز آوارگی کی شام ہورہی ہے مجھے درجنوں نہیں سینکڑوں منظر یاد آتے ہیں‘ جیسے کعبے میں بچھڑے ہوئے صنم آتے ہیں‘ جو لوح دل پر نقش ہو کر رہ گئے...سب کا تذکرہ تو ناممکن اور محال ہے لیکن ان میں سے کچھ کو یاد کر لیتے ہیں کہ انہیں دوبارہ دیکھنے اور محسوس کرنے کا امکان اب کم کم ہے...میں ایران کی سرحد بازرگان پار کرکے ترکی میں داخل ہوتا ہوں...ہم ایک ویران اور دھول آمیز کچے راستے پر چلے جا رہے ہیں اور یکدم منظر وسیع ہونے لگتا ہے...بائیں جانب گھاس بھرے میدانوں کے آخر میں ایک شاندار برف پوش پہاڑ ان میدانوں پر اپنی برف کی سفیدی بکھیرنے لگتا ہے‘ کوہ آرادات......آرادات کے دامن میں ایک گاﺅں ہے اور اس کے کسی مکان میں سے کسی چولہے کا دھواں اٹھ رہا ہے...میں اور سکھدیپ سنگھ رانگی اس کی سرخ سپورٹس کار پر گئی رات کیسپئن سمندر کی جانب اڑے جاتے ہیں اور شاہراہ کے کناروں پر تاریکی میں بھیڑیوں کی آنکھیں روشن ہوتی ہیں۔آبی شہر وینس کی ایک شب میں ایک سیاہ تابوت پانیوں میں تیرتاہے ایک جنازہ ہے جو کشتیوں پر قبرستان کی جانب رواں ہیں اور کچھ سیاہ پوش عورتیں ہیں جو رو رہی ہیں...سوئٹزر لینڈ کی جھیل جنیوا کے کنارے” شاتو دی شی آں“ نام کا قدیم قلعہ ہے جس کی ایک کوٹھڑی میں لارڈ بائرن نے اپنا نام کھودا تھا... جپسی میرے ساتھ ہے‘ وہ کہتی ہے” بائرن کے نام پر ہاتھ رکھو...ہم کبھی جدانہ ہونگے“ کینیڈا کی دورافتادہ وادی یوکان سے الاسکا کی جانب خزاں آلودسرخ منظروں والی” ٹاپ آف دے ورلڈ روڈ“ ہے اور وہاں دور دور تک خزاں کی سرخی اور اداسی ہے اور ہم ہیں۔ اسی یوکان وادی کے ایک گاﺅں کی شب میں‘ مجھے ایک منظر دکھایا گیا جو دیکھا نہیں ہوا تھا...شب کی تاریکی میں یوکان کے آسمان پر” شمالی روشنیوں“ کے رنگین سانپ بل کھاتے ایک جادوئی تصویر پینٹ کرتے تھے‘ الاسکا کے وسیع ویرانے ہیں اور جنگل ہیں اور ایک بہت بڑا گرزمی بیئر..ایک ریچھ سڑک پر آجاتا ہے۔ ہم منیٰ سے لاکھوں کی تعداد میں سوئے عرفات جاتے ہیں اور ایک گونج ہے... لبیک لبیک کی ایک گونج ہے جو کائناتوں پر حاوی ہو رہی ہے اورریت کے ایک ٹیلے کے عقب سے ایک احرام پوش خاندان نمودار ہوتا ہے تیز ہوا سے ان کے سفید لبادے تھرتھراتے ہیں اور وہ پیدل عرفات کے میدان کا سفر کرتے ہیں میں نیم اندھیرے میں جنت البقیع کے قبرستان میں ہر پتھر کو آنکھوں سے لگاتا ہوں اور ایک روضہ¿ رسول کے سبز گنبد کی اوٹ سے ہولے ہولے آفتاب ابھرتا ہے۔ غارحرا کی رات میں غار کے شگافوں میں سے داخل ہونے والی چاندنی کے جزیرے ہیں جو میرے بدن پر بچھتے ہیں اور ایک موجودگی محسوس ہوتی ہے‘ میں قرطبہ کی شب میں لبنانی ناژلاکے ساتھ بھٹکتا پھرتا ہوں اور مسجد قرطبہ کا ہجوم نخیل مجھ پر سایہ کرتا ہے۔ میں شام کے اجڑ چکے شہر قنیطرہ کے کھنڈروں میں ہوں اور گولان پہاڑیاں میرے سامنے ہیں اور ان کے پار اسرائیل ہے‘ مجھے ابھی بیروت جانا تھا اور خانہ جنگی سے بمشکل فرار ہو کر ایک ترک جہاز پر سوار ہو کر قدیم یونانی جزیروں تک جانا تھا... میں ان لوح دل پہ نقش مناظر میں پاکستانی شمال کے منظر بیان نہیں کرونگا کہ ان کا تذکرہ بہت طویل ہو جائےگا...مجھے” الحمرا کی کہانیاں“ کے مصنف واشنگٹن اردنگ کا دریائے ہڈسن پر واقع گھر یادآتا ہے‘ شاعر والٹ ویٹ مین اور ارنسٹ ہمینگوے کے گھر یادآتے ہیں... امریکہ کے آخری جنوبی کونے کی ویسٹ کا وہ شہر یاد آتا ہے جس کی سڑکوں اور گلیوںمیں ہزاروں مرغ اور مرغیاں آوارہ پھرتے ہیں اور وہاں جب رات ہوتی ہے تو سمندر پار صرف نوے کلومیٹر کے فاصلے پر کاسٹرو کے کیوبا کی روشنیاں نظرآتی ہیں .چلئے اس تصویری اداسی کو کم کرتے ہیں...درجنوں تصویروں کو پھر کبھی بیان کرلیں گے...ایک آخری تصویر میں کچھ الفت کے رنگ بھرتے ہیں...میں ایک مرتبہ پھر ایک طویل مسافت کے بعد پاکستان واپس آرہا ہوں...افغانستان کے راستے طورخم بارڈر عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوتا ہوں اور جونہی میرے پاﺅں تلے اپنی سرزمین آتی ہے تو میں جھک کر اسے چومتا ہوں‘ ایسا کبھی نہیں ہواکہ اپنے وطن میں داخل ہو کر میں نے اپنی مٹی کو نہ چوما ہو۔
اے وطن‘ پیارے وطن‘ پاک وطن