حقیقی جمہوریت، کب، کیسے۔۔

یہ ایک غلط فہمی ہے کہ ہمارے ہاں مروجہ جمہوریت، عوام کی اکثریت کی نمائندہ ہوتی ہے. حقیقت یہ ہے کہ کبھی بھی کوئی حکومت اکثریت کی نمائندہ نہیں بنی، بلکہ زیادہ سے زیادہ بیس فیصد عوام کی نمائندگی کرتی ہے. اس کو ایسے سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک قومی اسمبلی کے حلقے میں ایک لاکھ ووٹ ہے، الیکشن میں چار امیدوار مدمقابل ہیں، پولنگ میں ٹرن اوور 40 فیصد، یعنی صرف چالیس ہزار ووٹ پول ہوئے. ان میں سے ایک امیدوار بیس ہزار ووٹ لیتا ہے، دوسرا پندرہ ہزار اور تیسرا تین ہزار، جبکہ چوتھا دو ہزار، اس طرح بیس ہزار ووٹ لینے والا جیت جاتا ہے. حالانکہ وہ حلقے کے ایک لاکھ ووٹروں میں سے صرف 20 فیصد کا ہی نمائندہ ہے، اگر آبادی کا تناسب دیکھیں تو یہ حلقے کے دو لاکھ شہریوں میں سے صرف دس فیصد کا ہی نمائندہ کہلا سکتا ہے‘مگر قانون کے مطابق وہی منتخب نمائندہ کہلانے کا حقدار ہے‘ جو پارٹی حکومت بناتی ہے، اس کے مجموعی ووٹوں کی تعداد کبھی بھی ایک کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ نہیں ہوئی، جو خود کو 22 کروڑ عوام کی نمائندہ کہتی ہے‘ اور جب یہی اقلیت کے نمائندے ارکان اسمبلی ایوان بالا (سینیٹ) کے لیے ارکان کا انتخاب کرتے ہیں، تو صورتحال مزید مضحکہ خیز ہو جاتی ہے‘بالواسطہ نمائندہ بن کر سینٹ کے ارکان بھی خود کو عوامی نمائندہ ہی کہلاتے ہیں، حالانکہ ان کی نامزدگی سے لے کر انتخاب تک، کسی عام آدمی کا کوئی دخل ہی نہیں ہوتا‘یہ ایک دیکھی بھالی اور روز مرہ کے معمول کی بات ہے کہ بعض ارکان پارلیمنٹ اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد سے آگے نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی سوچ سکتے ہیں کرنے پر آئیں تو راتوں رات آئین میں ترمیم کر لیتے ہیں، لیکن مفاد نہ ہو تو انتخابی اصلاحات جیسی بنیادی قانون سازی کے لئے برسوں بھی غور نہیں کرتے‘ حالیہ دنوں میں دیکھیں تو عدالت عظمیٰ میں سینیٹ انتخابات شفاف بنانے اور ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کے لیے بحث چل رہی ہے، اکثر سیاسی جماعتیں اصلاح کے لئے تیار نہیں، ورنہ یہ پارلیمنٹ کا کام ہے، عدالت تک آنا ہی نہیں چاہیے تھا‘دوسری طرف مختلف حلقوں میں ضمنی انتخابات کے عمل اور سامنے آنے والے نتائج بھی یہ بات سمجھا رہے ہیں کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے بھی فوری اصلاحات کی ضرورت ہے، لیکن بعض سیاستدانوں کا رویہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان کو صرف اپنی جیت اور سیاسی مفاد سے غرض ہے‘ عوام مرتے ہیں، جمہوریت کے اصول پامال ہوتے ہیں یا سچائی کا قتل ہوتا ہے‘ اس سے کوئی غرض نہیں‘جہاں جیت جائیں وہاں درست اور جہاں ہار ہو وہاں دھاندلی کا واویلا، اب تو یہ حد ہوگئی کہ حکومتی امیدوار بھی مظلوم اور دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں‘ جہاں تک سینیٹ کے انتخابات کا تعلق ہے تو قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ میں ایک بل زیر التوا ہے، جس میں سفارش کی گئی ہے کہ امریکہ کی طرح سینیٹ کے انتخابات بھی براہ راست ہوں‘ عوام کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ ایوان بالا کے لئے بھی اپنے نمائندے منتخب کر سکیں‘ اس طرح کسی نہ کسی حد تک تو عوام کی رائے شامل ہو سکتی ہے‘اگر ایسا ہو جائے تو سیاسی پارٹیاں بھی منظور نظر افراد، رشتہ دار اور دوست احباب کو ٹکٹ دینے اور ایک صوبے سے دوسرے صوبے کا ووٹر بنا کر منتخب نہ کرائیں‘بلکہ ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہوں جو عوام میں کچھ شناخت رکھتے ہوں، اور نہ ہی ایک ہی خاندان کے کئی کئی افراد ایوان بالا میں بیٹھ سکیں لیکن سیاسی پارٹیاں ایسا قانون منظور ہی کیوں ہونے دیں گی جس سے ان کی سیاسی اجارہ داری ختم ہو ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت نہ آئے اور خاندانی اجارہ داری سے نکل کر عوامی نمائندگی کو نہ اپنائیں لیکن یہ اس لیے ممکن نہیں کہ عوام ابھی شخصیات کے سحر سے نہیں نکلنا چاہتے اور نہ ہی خاندانی وراثتوں میں سیاسی پارٹیوں کی منتقلی کو مسترد کرتے ہیں‘ عوام کو اپنے مفاد کا شعور آگیا اور وہ سیاسی خاندانوں کی ذہنی غلامی سے باہر نکل سکے تو نئے انداز میں جمہوریت قائم ہوگی اور چونکہ ایسا تعلیم کے بغیر ممکن نہیں اس لیے ابھی ہمیں حقیقی جمہوریت اور نمائندگی کے حصول کے لیے انتظار کرنا ہوگا‘یہ انتظار کتنا لمبا ہو سکتا ہے، اس کا انحصار بھی خود عوام پر ہے۔