گزشتہ دنوں ملک بھر میں ضمنی الیکشن کے دوران ہر حلقے میں وہی روایتی شورشرابا اور گہماگہمی رہی، ووٹروں پر اثر انداز ہونے کیلئے وہی حربے استعمال کئے گئے، جو ہمارے ہاں شروع سے رائج ہیں پارٹی منشور یا نظریہ تو شاید اب زیادہ زیر بحث نہیں آتا مقامی سطح پر اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات اور دھونس کو سیاسی پارٹیاں بھی انتخابی ہتھیار تسلیم کرتی ہیں اگر صرف پارٹی منشور اور نظریہ ہی کافی ہوتا تو شاید ہر پارٹی کو 'الیکٹ ایبل' امیدواروں کی تلاش نہ رہتی اور نہ ہی ایک امیدوار ہر بار نئی پارٹی کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہوتا1990 کے بعد الیکشن جیتنے کیلئے سب سے موثر حربہ پولنگ سٹیشن کے قریب خوب و ہراس پھیلانا رہا ہے.۔یہ کراچی سے شروع ہوا، جہاں ہر حلقے میں موٹر سائیکلوں پر سوار نکلتے، فائرنگ کرتے، ہلہ گلہ کرتے اور عام ووٹر خوف سے گھر میں ہی دبک کر بیٹھ جاتے۔ اس کے بعد پولنگ عملے کو بھی یرغمال بنا کر اپنے بکسے بھر لے جاتے یہ سب کچھ دن کی روشنی میں اور کھلی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا۔ مگر کسی نے اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی الیکشن کمیشن صرف پولنگ بوتھ کے اندر کی ذمہ داری قبول کرتا تاہم اب یہ سلسلہ پورے ملک تک پھیلتا نظر آ رہا ہے کئی بار جھگڑوں میں سیاسی کارکن مارے بھی گئے، مگر انتخابی نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ این اے 75 سیالکوٹ کے ضمنی انتخابات میں بھی کوئی نئی یا انہونی بات نہیں ہوئی۔ وہاں الیکشن کے دن دونوں پارٹیوں کے لوگ اسلحہ لے کر گھومتے رہے اور ووٹروں کو خوف زدہ کرتے رہے۔ اسی دوران جھڑپیں اور لڑائی بھی ہوئی اور ایک جگہ فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق بھی ہو گئے اس حد تک کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا،کیونکہ دونوں طرف کے لوگ اس میں ملوث تھے۔ مسئلہ 20 پولنگ سٹیشن کے پریزائیڈنگ افسران کا ووٹوں کے تھیلوں کے ساتھ غائب ہونے سے پیدا ہوا، اس کا سادہ سا حل تو یہی تھا کہ ان 20 پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کرائی جائے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے پہلی بار پورے حلقے میں انتخابی عمل اور ماحول کو بھی دیکھا اور خوف و ہراس پھیلانے کو بھی آزادانہ انتخاب میں رکاوٹ قرار دے کر مقامی پولیس اور انتظامیہ کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ الیکشن کمیشن نے نہ صرف پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا بلکہ ضلع سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر، ڈسکہ کے اسسٹنٹ کمشنر، ڈی پی او، ایس پی کو معطل کرنے،جبکہ صوبے کے چیف سیکرٹری اور آئی جی پی کو تبدیل کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔ پاکستان کی انتخابی اور سیاسی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ پولنگ کے دن امن وامان اور ماحول کو بھی آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کیلئے ضروری قرار دیا گیا ہے اور اس میں ناکامی پر انتظامیہ کو قصور وار ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے اس کو تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے سراہا جانا چاہئے تاہم روایتی اندازے سیاست کو پسند کرنے والے کچھ لوگ اس سے پریشان ہیں کہ اگر ووٹر کو آزاد ماحول مل گیا تو وہ اپنی من مانی کرے گا جس سے روایتی سیاست ختم ہو جائے گی۔ مروجہ ماحول میں تو نیوٹرل یا آزاد ووٹر گھر سے نکلنا بھی گوارا نہیں کرتا، جمہوریت کا مقصد بھی یہی ہے کہ کسی قسم کے دباؤ کے بغیر ووٹر اپنی رائے کا اظہار کرے۔ اگر این اے 75 کو ہی دیکھا جائے تو اپوزیشن کے اعتراض پر پہلی بار الیکشن کمیشن نے پولنگ کے دن فوج نے کو نہیں بلایا تھا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ سول انتظامیہ اور پولیس سیاسی لوگوں کے آگے کتنی بے بس ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز موجود ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گاڑیوں میں اسلحہ موجود ہے، لیکن امیدوار اور ان کے چمچے پولیس کو دیکھنے بھی نہیں دیتے جبکہ موٹر سائیکل پر بعض لوگ دندناتے پھرتے ہیں،انتظامیہ کی بے بسی کی انتہا ہے کہ پریذائیڈنگ آفیسر بھی اغوا کر لیے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کا آزاد ہونا جمہوریت کیلئے اچھی بات ہے،مگر یہ کسی کو قبول نہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی اور انتخابی کلچر کو یکسر بدلنے کی طرف عملی اقدامات کئے جائیں اور آزادانہ اظہار رائے کیلئے مناسب ماحول کی فراہمی کو انتظامیہ کی ذمہ داری قرار دیا جائے جس میں ناکامی پر ان کو جوابدہ ہونا پڑیگا۔اس معاملے میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو مل کر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا ہوگا۔ دیکھا جائے تو جمہوریت کی بنیاد انتخابی عمل ہے اور انتخابی عمل کا انحصار آزادانہ رائے دہی کے لئے مناسب ماحول کی فراہمی پر ہے۔