کھیل بچپن کے لڑکپن کے بہت دلکش تھے۔۔۔

پشاور میں کچھ دن پہلے ہونے والی ژالہ باری بہت ہی اچانک ہوئی تھی ، یوں بھی پھاگن کا مہینہ پر زور اور تیز و تند ہواو¿ں اور گھن گرج والے بادلوں اور گھنگھور گھٹاو¿ں کا موسم ہے ، اس مہینے دیکھتے ہی دیکھتے موسم بدل جاتا ہے ‘سردی اور موسم بہار کے باہمی ملاپ کا یہ کھٹا میٹھا موسم ہمیشہ دل میں نئی جوت جگاتا ہے، ژالہ باری کی اس شام آسمان کے کنارے پر مٹیالے اور ہلکے زرد یا سنہرے رنگ کے بہت تھوڑے بادلوں کو دیکھ کر مجھے بالکل بھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ یہ بادل برسنے یا گرجنے والے ہیں، لیکن عشاءکے آس پاس پہلے بادلوں کے گرجنے کی آواز آئی اور فوراََ بعد ایسی ژالہ باری ہوئی کہ لمحوں میں جیسے ساری گلی سفید رنگ کے مو تیوں سے بھر گئی اور پھر تھوڑے ہی وقفے سے ہونے والی تیز بارش نے تو یار لوگوں کو کپکپا کر رکھ دیا‘کچھ دنوں سے سردی کا زور ٹوٹ چکا تھا اور دن کے وقت تو موسم خاصا گرم ہو چکا تھا، ژالہ بار ی سے ایک دن پہلے صبح سویرے آسمان پر بہت گہرے بادل تھے اور روز کی نسبت خنکی بھی زیادہ تھی، یہ اتوار کی صبح تھی اور مجھے فیملی کے ساتھ دوست عزیز عبدالرو¿ف روہیلہ کی دعوت پر روٹری کلب کے روایتی سالانہ میلہ میں شرکت کرنا تھا،جو ہر سال کنڈ ریسٹ ہاو¿س میں دریا کے کنارے منایا جاتا ہے، یوں تو یہ میلہ بہت عرصے سے جاری ہے مگر مجھے اس سے جڑے ہوئے کم و بیش بارہ برس ہو ئے ہیں، پہلے پہل میری شرکت بطور شاعر ہوئی پھر روٹری کلب کے سارے دوستوں سے محبت اور دوستی کا ایسا اٹوٹ رشتہ قائم ہوا ،جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط اور فربہ ہو تا جا رہا ہے، میں گزشتہ برس امریکہ میں تھا اس لئے شریک نہ ہو سکا، اس لئے اب کے اس کا مجھے انتظار تھا تا کہ دوستوں سے ملاقات ہو سکے، عبدالرو¿ف روہیلہ کے دعوتی پیغام مہینہ بھر پہلے سے ملنا شروع ہو جاتے ہیں ، مجھے یہ بھی خوشی ہے کہ اب ، کچھ برسوں سے قلم قبیلہ کے کچھ اور دوست بھی اس میں شریک ہو رہے ہیں جن میں بیشتر کا تعلق قلم قبیلہ سے ہے اس لئے جہاں اس میلہ میں تفریح کے بہت سے سگمنٹس ہو تے ہیں وہاں ایک مشاعرہ بھی ترتیب پانے لگتا ہے ، اس میلہ میں شعر و سخن کا ایک حوالہ یہ بھی کہ نہ صرف عبدالرو¿ف روہیلہ جو کہ اباسین آرٹس کونسل کے صدر ہیں اور ایک عمدہ ذوق شعر کا رکھتے ہیں بلکہ روٹری کلب کے بیشتر زعما ءبلا کا ادبی ذوق رکھتے ہیں ، اس لئے بھی اس سالانہ میلہ کا بہت انتظار رہتا ہے لیکن اس دن صبح سویرے آسمان پر بہت گہرے بادلوںکو دیکھ کر مجھے خیال آ یا کہ آج دریا کنارے موسم کی خنکی کہیں اس موج میلہ میں کھنڈت نہ ڈال دے کیونکہ اس میلہ میں شیر خوار بچوں سے لے کر اسّی برس تک کے بچے شریک ہوتے ہیں اور اس بار تو ایسے ہی ایک شوخ شنگ بچے نے سارا میلہ اپنی شگفتہ مزاجی سے لوٹ لیا تھا، یہ پرانے روٹیرین ہدایت اللہ ایڈوکیٹ تھے، میں نے گھر سے نکلتے ہوئے سب کو کہہ دیا تھا کہ موسم میں بادلوں کی وجہ سے آج خنکی بہت ہو گی اس لئے گرم کپڑوں کا اہتمام کر کے گھر سے نکلیں، شاید میں یہ بھول گیا تھا کہ یہ پھاگن ہے جو پل پل اپنے رنگ بدلتا ہے وہی ہوا کہ کنڈ پہنچنے تک بادل پہلے ہلکے ہوئے اور پھر ایک مہین سی چادر دھوپ کے چہرے پر ڈال کر فراخ آسمان کے کناروں میں سمٹ گئے، خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی شریک تھی اور روٹری کلب کے اراکین پاکستان بھر سے آئے ہوئے تھے، مزے مزے کے سگمنٹس جاری تھے تحائف تقسیم ہو رہے تھے،موج میلہ رنگ پر آیا ہوا تھا جب دھوپ کی شدت نے بھی شرکا ءکی خبر لینا شروع کر دی، گرم کپڑوں کا فیصلہ میرا تھا سو گھر والوں سے آنکھیں چرا رہا تھا لیکن اس دن کے سمٹے ہوئے بادلوں نے دوسرے ہی دن ژالہ باری اور تیز بارش کی صورت میںاپنا قرض چکا دیا تھا۔ موسم میں جاتی سردیوں کی خنکی کی نئی لہر شامل ہوئی مگر دو دن بعد دھوپ کی شدت اور حدت نے چارج سنبھال لیا‘ ابھی تین دن پہلے میں شام کے وقت ورسک روڈ کی ایک کالونی میں ایک مکان کی چھت پر تھا اس وقت جنوب مغرب کی سمت آسمان کے کنارے پر کچھ مٹیالے سے رنگ کے بادلوں کے ٹکڑے بکھرے بکھرے نظر آئے دو زردی مائل بادلوں کے ٹکڑوں کے بیچ ایک سانولے رنگ کے بادل کے ٹکڑے سے کسی بچے کی شکل بنی نظر آ ئی، بادلوں سے بننے والی اس طرح کی تصویریں دیکھے اب ایک زمانہ بیت گیا ہے،میں نے بادلوں سے بننے والے اس سکیچ کو کیمرے میں محفوظ کرنے کےلئے سیل فون نکالا مگر اتنی دیر بھی بچے کی تصویر بڑے ایالوں والے ایک گھوڑے کی شکل دھار چکی تھی،مجھے معلوم ہے کہ ساون بھادوں کے بر عکس پھاگن کے مہینے کے بادل اس طرح کھلواڑ کرتے ہیں،یادش بخیر لڑکپن اور اوائل جوانی میں اس طرح کے موسم میں چھت پر جا کر چار پائی پر لیٹ کر سرمئی بادلوں سے بننے والی عجیب عجیب شکلیں دیکھنا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ جب ہوا چلنا شروع ہو جاتی تو دیکھتے ہی دیکھتے آسمان کے کینوس پر بننے والی تصویریں تیزی سے مختلف روپ دھارنے لگتیں ، پھر کہیں سے کالی گھنگھور گھٹائیں آ کر جیسے آسمان کی سلیٹ سے ساری شکلیں مٹا کر اپنی جگہ بنا لیا کرتیں اور میں کھلی چھت سے اٹھ کر برآمدے میں آجاتا کیونکہ جلد ہی چھما چھم بارش شروع ہو جاتی، بارش سے دوستی بھی انہی دنوں شروع ہو ئی تھی اور یہی دن تھے جب بچوں کی کہانیاں چھوڑ کر ناول پڑھنا شروع کر دیا تھا، پہلا ناول جو برادر اکبر معروف پشتو شاعر سید اعجاز بخاری کی کتابوں سے چرا کر اور چھپ چھپ کر پڑھا تھا وہ ایم اسلم کا ’چشم لیلیٰ“ تھا ۔ ناول کا نام تب تک معلوم نہ تھا کیونکہ اس کے نام والے پہلے پہلے صفحے پھٹے ہوئے تھے،( بعد میںخیال آیا کہ بھائی جان نے جان بوجھ کر وہ صفحات پھاڑ رکھے تھے تا کہ نصاب کی کتابوں میں اس کا پتہ نہ چل سکے، میں نے بھی پھر طبیعات کی بڑی تقطیع کی نصابی ٹیکسٹ بک میں چھپا کر ابن صفی کے بیسیوں ناول پڑھے ہیں ) چشم لیلیٰ بھی میں نے تکیہ کے غلاف میں چھپا کر کئی بار پڑھا تھا، پھر پڑوس سے ایک بلا کا دلچسپ ناول انجم پرواز کا ’ ’ برف تلے چنگاری“ ملا اور کچھ ہی عرصہ بعد اسی مصنف کا ”سمندر کے آنسو “ بھی مل گیا یہ دونوں ناول وہ تو اتنی بار پڑھے کہ زبانی یاد ہو گئے تھے۔ پہلی بار میں نے کاغان اور ناران کا نام ہی سمندر کے آنسو میں پڑھا چنانچہ جب دس بارہ برس بعد میں پشاور کے دوستوں کے ساتھ جھیل سیف الملوک کی سیر کو جا رہا تھا تو مجھے لگا کہ ان دشوار گزار راستوں سے میں پہلے بھی کئی بار گزر چکا ہوں،تب میں نے اپنے شاعر دوست ظہیر قریشی کو واپسی پر بس میں پورا ناول زبانی سنایا تھا،اب تو خیر اس دور کو پیچھے چھوڑے ایک زمانہ ہو گیا ہے لیکن سچی بات یہی ہے اب بھی بادلوں اور بارشوں کے موسم میں جیسے ٹائم مشین میں بیٹھ کر اپنے لڑکپن اور اوائل جوانی کے زمانے میں پہنچ جاتا ہوں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ
 کھیل بچپن کے لڑکپن کے بہت دلکش تھے
 اس زمانے میں کہاں بار ِدگر جائیں گے