یوں تو میڈیا کا مقصد عوام کو حالات حاضرہ سے آگاہی دینا ہوتا ہے اور اس سلسلے میں الیکٹرانک میڈیا اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کر رہا ہے اس سے جہاں مفاد عامہ سے وابستہ اداروں کی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے وہاں عوام کوبھی آگاہی اور شعور دینے کا کام آسان ہو جاتا ہے تاہم دیکھا گیا ہے کہ بعض چینلز پرسنسنی خیزی کو اہمیت دی جاتی ہے اور زیادہ خبریں منفی رحجانات کی ہی ہوتی ہیں۔ خدا جانے ایسا رحجان کیوں شروع ہوا ہے۔ اس میں زیادہ رپورٹیں مار دھاڑ کی ہی ہوتی ہیں۔ دراصل میڈیا ایک معاشرے کی عکاسی بھی کرتا ہے اور معاشرے کو راستہ بھی دکھاتا ہے۔ جب سے الیکٹرانک میڈیا پھیل چکا ہے۔ ناظرین کیلئے انتخاب کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ کس چینل کو دیکھے اور کس کو چھوڑے۔اب کوئی بھی ایک وقت میں سارے چینل تو نہیں دیکھ سکتا اس کیلئے اُسے انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ ناظرین کو اپنی طرف راغب کرنے کیلئے کچھ ٹی وی چینلوں نے مختلف طریقے اختیار کئے ہیں سنسنی خیزی کو اپنی خبروں کی زینت بنا کر اس میں کشش پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ جو خاصی حد تک کامیاب بھی ہے مگر اس کا ایک نقصان ہو رہا ہے کہ ہماری نئی نسل کو ان چینلوں میں دلچسپی تو ہو رہی ہے مگر اس کا ایک نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ہمارا نوجوان سنسنی خیز رپورٹوں سے جو کچھ حاصل کر رہا ہے وہ اُسے ایسے راستے پر لے جا رہا ہے کہ جو بہر حال فائدہ مند نہیں ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا نہ صرف حالات حاضرہ سے آگاہی کا ذریعہ ہے بلکہ یہ ایک سوسائٹی کی تعلیم کا بھی ذریعہ ہے۔ اگر اسی طرح ٹی وی چینلوں پرسنسنی خیزی کو رواج دیاجائے گا تو اس کا اثر نوجوانوں پر ضرور منفی ہی ہو گا۔ کوئی ئبھی نوجو ان ذہنی طور پور کچھ کرنے کی خواہش رکھتا ہے اور اس کی تگ و دو میں رہتا ہے۔ اب اگر معاشرہ اس کو ایسے حالات مہیا کرتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو مثبت کاموں کی طرف لگائے تو وہ معاشرے کی ترقی کا سبب بن سکتا ہے اور اگر اُسے منفی کاموں کی طرف لگایا جائے تو وہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے‘اگرالیکٹرانک میڈیا پرسنجیدگی کے رحجانات کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے تو معاشرے میں مثبت رحجانات پھلیں پھولیں گے۔ یہ بھی ا نسانی نفسیات ہے کہ وہ منفی رحجانات کا اثر جلد قبول کرتا ہے۔ خصوصاً جب اُسے معاشرے میں منفی کرداروں کی پذیرائی ملے گی تو وہ اُس جانب جلد مائل ہو گا۔ جب میڈیاسنسنی خیز خبروں سے بھرے پڑاہوگا تو لا محالہ نوجوان ذہن اس طرف مائل ہو گا یہ ایک نفسیات مسئلہ ہے کہ کوئی بھی کچا ذہن برائی کے راستے پہ جلد چل نکلتا ہے اور اگرا لیکٹرانک میڈیا اسے ایسی رپورٹیں دے رہاہے کہ جس میں سنسنی پیدا کرنے والے واقعات ہوں گے تو لازماً ایک نوجان اُس طرف ضرور مائل ہو گا اور گر وہ ایسا کچھ کرنے کے قابل نہ بھی ہو تو ایسا کرنے کی خواہش ضرور دل میں مچلتی ہے۔اگر الیکٹرانک میڈیا نوجوان نسل کی اچھی تربیت کے خیال سے ایسی رپورٹیں اپنی نشریات میں شامل کرے جس سے صبر و تحمل اور برداشت کی سبق مل سکے۔اسی طرح معاشرے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے تاہم اس کیلئے الیکٹرانک میڈیا کو جس کا گھر گھر اثر ہے اپنے انداز کو بدلنا ہوگا۔