چند سفروں کے ظروف۔۔۔

اگرچہ میں ن۔ م۔ راشد کا حسن کوزہ گر نہیں ہوں لیکن میری سٹڈی میں درجنوں ایسے کوزے‘ ظروف‘ برتن اور مگ بے ترتیب حالت میں پڑے ہوئے ہیں جو میں اپنی طویل مسافتوں کے دوران جمع کرتا رہا‘ ان میں سے کچھ ٹوٹ گئے اور جو ثابت اور سالم رہے وہ سب گویا مٹی میں گندھے خاموش سفرنامے ہیں‘ بے شک ادب کی مختلف اصناف بھی کوزہ گری کی ہی لفظی شکلیں ہیں‘ میں نے سفر ناموں‘ ناولوں‘ ڈراموں‘ کہانیوں اور کالموں کے کوزے بہت بنائے ان میں سے کچھ تو میرے ہاتھوں میں ڈھل نہ سکے‘ ڈھے گئے اور کچھ ایسی شکلوں کے تخلیق ہوگئے کہ میں خود بھی شش وپنج میں پڑ گیا کہ کیا یہ میں ہوں جس نے یہ عجب اور انوکھے کوزے اپنے محسوسات کے چاک کو گھما کر بنائے اور پھر انہیں عشق آتش کی بھٹی پر چڑھا کر پکایا...ان میں سے کوئی بھی جام جم نہیں‘ سب کے سب جام سفال ہیں‘ اگرچہ ان میں سے کوئی ٹوٹ جائے تو بازار سے ایک اور نہیں لایا جا سکتا...یہ میری دھرتی کی مٹی سے تخلیق کردہ جام ہیں‘ ان کے ٹوٹ کر بکھر جانے کا امکان کم ہے...
اور یہ جو کوزے اور مگ ہیں‘ میرے سفروں کی یادگاریں ان میں سب سے پرانی ایک صراحی ہے‘ جس پر” کبالاروخو“ نقش ہے اور اس پر ایک ہسپانوی رقاصہ کی شبیہہ چسپاں ہے۔
1969ئ...شہر قرطبہ...” کبالاروخو“ نامی ایک ریستوران جسکے صحن میں اندلس کی مہک دھومیں مچاتی تھی...”سرخ گھوڑا“ ریستوران کی شب میں لبنانی ناژلاسعد مسکراتی تھی اور وہ مجھے مسجد قرطبہ میں ملی تھی...ہم جب گئی شب رخصت ہونے لگے تو ہم دونوں کو ریستوران کی جانب سے ایک ایک صراحی تحفے کے طور پر پیش کی گئی‘1975ءمیں جب میں پی ایل او میں شمولیت کی خاطر بیروت گیا تو میں نے کوشش کی کہ ناژلاسعد سے ملاقات کرسکوں پر اس روزخانہ جنگی نے پورے بیروت کو چھلنی کردیا اور میں نہ جاسکا...ممکن تو ہے کہ ناژلا کے پاس بھی ابھی تک وہ صراحی محفوظ ہو جس پر” کبالوروخو“ درج ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ خانہ جنگی کے دوران ہلاک ہوچکی ہو کہ وہ ایک عیسائی خاتون تھی...
 ایک مگ پر صرف” گرنیڈپا...فلوریڈا“ درج ہے...یہ خصوصی طور پر میرے نواسے نوفل نے مجھے تحفے کے طورپر دیا تھا...
ایک اور مگ میری سٹڈی ٹیبل پر پڑا ہے‘ چند بارہ سنگھے نقش ہیں اور ” الاسکا“ لکھا ہے...یہ مگ الاسکا کے اس سفر کی نشانی ہے جب میں نے تقریباً بارہ ہزار کلو میٹر کا زمینی سفر اس دور دراز کی سرزمین پر کیا تھا...کینیڈا کے شہر کیگری ...وکٹوریہ...ٹورنٹو...وینکوور کی یادگاریں ہیں...ایک اور کوزہ رنگین مزاج کا ہے جو امریکہ کے آخری کونے نے پر واقع کی ویسٹ کا ہے اور پھر ایک مگ ایسا ہے جس پر کوپن ہیگن کی جل پری جانے کس کی منتظر سمندر کی جانب دیکھ رہی ہے‘ یہ جل پری ڈنمارک کا قومی نشان ہے اور جب آپ اسے دیکھتے ہیں تو پہلی نظر میں دکھائی ہی نہیں دیتی کہ یہ اتنی مختصر ہے‘ ایک چٹان پر براجمان جل پری‘ اور کبھی کوئی اس کا سر اتار کرلے جاتا ہے...
ایک سادہ سا جام ہے جس پر” واٹرلو1810 ...ئ“ ثبت ہے...جب مجھے برسلز کے کچھ ادب دوستوں نے مجھے بیلجئم میں مدعو کیا تو میں نے شرط رکھی کہ آپ مجھے نپولین کی آخری جنگ کے میدان کو لے چلیں گے...یہ جام اسی یادگار دن کی یادگار ہے...نوجوانی کے زمانوں میں نپولین ہمارا ہیرو ہوا کرتا تھا‘ ہم نے اسکے بارے میں لڈوگ کی” نپولین“ کے علاوہ” ڈیزری“ نام کے ناول بھی ازبر کر رکھے تھے...
آج کسی کو یاد نہیں کے واٹرلو کے فاتح کا نام کیاتھا لیکن جو شکست کھاگیا اس کا نام تاریخ کے مضموں پر روشن ہے‘ ایک اور شیشے کا مگ ایسا ہے جس پر ” یونائیٹڈ نیشنز“ درج ہے اور سنہری رنگ میں اس کا امتیازی نشان نقش ہے...یہ مجھے سلجوق نے تحفے کے طور پر دیا تھا تاکہ اسکے ابا کو یاد رہے کہ ان کا بیٹا اسی یو این او میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہے...
 اور پھر میری کتابوں کے درمیان نہایت قدیم شکل کے دیدہ زیب چند ایسے کوزے سجے ہیں جو کاشغر شہر کے قدیم حصے میں اب تک آباد کوزہ گروں کی تخلیق ہیں...ان کوزہ گروں نے مجھے اور میری بیگم کو سر آنکھوں پربٹھایا کہ ہم مسلمان تھے اور پاکستان کے تھے...ان کی بوڑھی حاجن والدہ نے ہمارے لئے ایک خصوصی کاشغری مٹھائی تیار کی جو ہم نے بے حد رغبت سے کھائی...ان سب یادگاری ظروف اور کوزوں میں ایک مگ بے حد منفرد ہے کہ یہ زشی کا ہے اور نہ شیشے کا‘ بلکہ کھڑی سے تراشا ہوا ہے اوریہ ماسکو سے ایک طویل فاصلے پر واقع لیوٹائسائی کی ریاست اور اس کی شاہانہ رہائش گاہ کی یاددلاتا ہے‘ اس پر ٹائسائی کے آٹوگراف کا نقش ہے...میں نے میمونہ کے ہمراہ وہاں ایک یادگار دن گزارا تھا اور ٹائسائی لائبریری کی انچارج خاتون کا کہنا تھا کہ میں پہلا پاکستانی ادیب ہوں جو ٹائسائی کے عشق میں مبتلا یہاں تک آنے پہنچا ہوں...میں نے ایک سرسبز جنگل کے درمیان ٹائسائی کی کچی قبر پر کچھ جنگلی پھول چڑھائے اور کچھ لمحے مکمل تنہائی میں اسکے ساتھ گزارے اور اسکے ساتھ باتیں کیں...اس ملاقات کی تفصیل میں اپنے سفر نامے” ماسکو کی سفید راتیں“ میں بیان کرچکا ہوں... ٹائسائی کی عظمت کا ایک اور ثبوت ابھی حال ہی میں سامنے آیا ہے... بہت معروف اور مہنگے برانڈ” ماﺅنٹ بلانک“ کی جانب سے ایک خصوصی سنہری نب کا پین ادیبوں کے حوالے سے متعارف کروایا گیا ہے اور اس سلسلے کا پہلا قلم” لیوٹائسائی“ کے نام کا ہے...مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ٹائسائی ایک بڑا ادیب تھا یا ایک بڑا انسان...جس نے اپنی زمینیں مزارعوں کے نام وقف کر دیں...اپنا شاہی لباس ترک کر کے فقیروں ایسا کھردرا لباس پہن لیا اور کسانوں کے ہمراہ کھیتوں میں مشقت کرتا رہا‘ اس نے وصیت کی کہ مجھے میرے آبائی جنگل میں ایک کچی قبر میں دفن کیا جائے تاکہ میں مرنے کے بعد بھی موسموں کو محسوس کر سکوں...اور میری تدفین پر مذہبی رسوم نہ ادا کی جائیں‘ پادری میرے بدن کو ہاتھ نہ لگائیں‘ میں نے اس کے گھر میں نمائش شدہ کھردرے ادنیٰ لبادے کو چوری چھپے چھوکر اس کی انگلیوں کو محسوس کیا...
ایک اور چینی کا مگ ایسا ہے جس پر میری ایک تصویر نقش ہے‘ میں اپنی رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھا کچھ لکھ رہا ہوں اوریہ ” مستنصر حسین تارڑ ریڈرز ورلڈ“ کے ہزاروں اراکین کی جانب سے مجھے میری پچھترویں سالگرہ کے موقع پر پیش کیاگیا... آپ کے پڑھنے والے آپکو ایسی سربلندیوں پر سرفراز کرتے ہیں جن کے آپ حقدار نہیں ہوتے‘ محبت حق نہیں دیکھتی‘ نابینا ہوتی ہے...
بعد مرنے کے میرے گھر سے یہ ساماں نکلا...