ہوتا یہی ہے کہ جب بھی انتخابات کا ہنگامہ ختم ہوتا ہے تو الزامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہماری نفسیات یہ ہے کہ ہم ہار نہیں مانتے ۔ ہارنے والا ہمیشہ دھاندلی کا شور مچا لیتاہے ظاہر ہے کہ جب ایک مقابلہ ہو رہا ہے تو ایک نے تو ہارنا ہی ہے ۔ مگر ہماری نفسیات یہ ہے کہ ہم ہار کبھی نہیںمانتے ۔ بچپن کی کشتی میںہم یہی کرتے تھے کہ جب ایک دفعہ ہار جائیں توہم کہتے تھے کہ کشتی تین دفعہ ہوتی ہے اور جو کوئی تین میں سے کم از کم دو دفعہ ہارے گا تو اُس کی ہار ہو گی ورنہ ایک آدھ دفعہ کی ہار کو ہم ہار مانتے ہی نہیںتھے ۔ اسی لئے پھر فیصلہ تین کشتیوں پر ہوتا تھا اس میں جو بھی دو دفعہ جیت جاتا وہ جیت جاتا مگر اس پر بھی ہارنے والا بڑی مشکل سے ہار مانتا تھا۔ یہی صور ت حال ہمارے ہرمقابلے میں ہوتی ہے۔ ہم کبھی بھی ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتے ۔ جب سامنے ہار جاتے ہیں تو بھی ہم اس پرکچھ نہ کچھ الزام دھر کے اپنی ہار کو جیت میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ عادت ہماری ہر میدان میںہوتی ہے۔ انتخابات میں ایک امیدوار ہار جا تاہے ۔ انتخابات کا عمل با لکل شفاف ہوتاہے کہ کسی بھی سٹیشن پر پولنگ کے عملے کے سر پر ہر امیدوار یا اس کا ایجنٹ بیٹھا ہوتا ہے ۔ سب کے سامنے خالی بکسے کھولے جاتے ہیں ۔ سب امیدواروں یا ان کے ایجنٹوں کو دکھائے جاتے ہیں کہ دیکھ لیں کہ بکسے بالکل خالی ہیں۔ پھر ووٹنگ کا عمل جاری ہوتا ہے توہر امیدوار یا اس کا ایجنٹ سامنے بیٹھا ہوتا ہے اور ہر ووٹ پول کرنے والے کو دیکھتا ہے مگر جب آخر میں گنتی ہوتی ہے تو ہارنے ولا امیدوار ماننے کو تیار نہیںہوتا ۔ او ر پھر پریزایڈنگ افسر کو مہینوںعدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں اور اپنی صفائیاں دینی پڑتی ہیں۔ حالانکہ پولنگ کے عملے میں سے کسی کا بھی امیدواروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس کا کاکم صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ سب کے سامنے بکسوںمیںووٹ ڈلوائے اور سب کے سامنے ان کو کھول کر ووٹوں کی گنتی کرےہمارے ساتھ بھی ایک دو دفعہ ایسا ہوا ہے اس لئے ہم نے اپنے کالج والوں کو عرض کی ہے کہ کسی بھی پولنگ کے دوران میرا نام ڈیوٹی دینے والوں میںشامل نہ کیا جائے۔ اللہ جانے ہم جو سرکاری ملازم ہوتے ہیں اُن کو کیوںیہ ڈیوٹیاں لازمی دینی ہوتی ہیں اور پھر ہارنے والے امیدواروں کے مقدمات میں بھی سارا دن عدالتوں کے باہر دھوپ میں یا سردی میں بیٹھنا پڑتا ہے کہ ہم نے حکومت کا ایک کام انصاف کے ساتھ انجام دیا ہے۔ مگر ہارنے والے امیدوار کو ہم پر شک ہوتا ہے کہ ہم نے دھاندلی کر دی ہے۔اصل مسئلہ یہی ہے کہ کوئی بھی امیدوار ہار قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا ۔ مگر جب کوئی بھی انتخاب ہوتاہے تواس میں جیتنا تو صرف ایک امیدوار نے ہوتا ہے مگر ہر امیدوار یہی چاہتا ہے کہ وہ ایک وہی ہو۔ اس سے مسئلہ کھڑا ہوتا ہے اور ہارنے والا ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتا ور اس کا سارا بوجھ کسی بھی سٹیشن کے عملے پر پڑتا ہے اور بھگتنا صرف پریزائڈنگ افسر کو ہوتا ہے۔ اب اگر یہ سمجھ لوگوں کو آ جائے کہ کسی بھی کھیل میں جیت بھی ہو سکتی ہے اور ہار بھی ۔ دونوں صورتوں کو ماننے کا حوصلہ بھی ہونا چاہئے اور قبول بھی کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔اور یہ تب ہی ممکن ہو گا کہ ہر کھیلنے والایہ بات مان لے کہ وہ ہار بھی سکتا ہے۔ جیت کی سوچ ضرور ہونی چاہئے مگر ہارنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہئے۔