کورونا اور کھیل۔۔۔

کورونا کے وار ہر طرف جاری ہیں۔ اس موذی مرض نے زندگی کے ہر میدان کو ہی متاثر کیا ہے۔ خصوصاً کھیل کے میدانوں کا ویران کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب اگر چہ کرکٹ کی مختصر شکل سامنے آئی ہے تاہم پھر بھی کسی میچ کا فیصلہ فٹبال کی طرح ڈیڑھ گھنٹے میں نہیں ہوتا بلکہ اس کیلئے کم ازکم چار گھنٹے چاہئے ہوتے ہیں۔اور اگر بات کریں ونڈے اور ٹیسٹ کرکٹ کی تو اس کےلئے ایک دن سے لے کر چار اورپانچ دن چاہئے ہوتے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ پانچ دن کھیل کر بھی بعض اوقات فیصلہ نہیں ہو سکتا اور پانچویں دن کہا جاتا ہے کہ کھیل برابری پر ختم ہوا اب ایسا کھیل کہ جس میںپانچ دن کھیل کے بھی فیصلہ نہ ہو سکے تو اس کھیل پر اگر جرمنی میں پابندی عائد ہوئی ہے تو یہ کچھ غلط بھی نہیں ہے، اس لئے کہ ایک قوم جو کچھ کرنا چاہتی ہے اُس کو پانچ دن ضائع کر نا زیب نہیں دیتا اگر جرمنی میں اس کھیل پر پابندی لگائی گئی تھی تو یہ کچھ غلط بھی نہیں تھا ۔انگریز اگر اس کھیل کو دل سے لگائے ہوئے ہیں تو یہ کوئی غلط نہیں کہ ان لوگوں نے خود کو ترقی یافتہ قوموں میں شامل کیا ہوا ہے اور اگر یہ پانچ دن کھیل دیکھتے ہیں تو باقی کا مہینہ وہ ڈٹ کر کام بھی تو کر تے ہیں۔ ہمارے ہاں ذرا مختلف بات ہے۔ ہم ویسے بھی ایک سہولت پسند قوم ہیں ۔اس کا نظارہ آپ کو ہر حجرے میں دکھائی دے گا کہ لوگ سارا سار ا دن اور شامیں ان حجروں کی نذر کر دیتے ہیں اس لئے کہ ا ن کو کام کرنا پسند ہی نہیں ہے۔ ترقی یافتہ قومیں اس لئے ترقی یافتہ ہیں کہ ان لوگوں نے ایک عرصہ ڈٹ کر محنت کی ہے اور اپنے ملکوںکو ترقی دی ہے۔ اور جب آپ پورے چھ دن ڈٹ کر کام کرتے ہیں تو ایک دن آپ کا آرام کرنا بنتا ہے۔ ہاں اگر آپ سارا ہفتہ ہی حجروں میں گزاریںاور گپیں ہانکیں اور پھر گلہ بھی کریں کہ آپ کا ملک ترقی نہیں کر رہا تو پھر اس بات کو سمجھنا کافی مشکل ہو گا۔ اگر آپ کو اپنے ملک کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میںکھڑا کرنا ہے تو پھر آپ کو یہ حجروںوالی مجلسوں سے اعتراض کرنا ہو گا۔ ہاں اگر آپ دن بھر جی جان سے کام کرتے ہیں اور شام کو اپنا وقت حجرے میں اپنی تھکن دور کرنے کےلئے آتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے محلے کے مسائل کو سننے اور حل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیںتو یہ اپنے وقت کا ایک بہتر استعمال ہو گا۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ ہمارے بھائی سارا دن ہی حجروں میں گزارنا بہتر سمجھتے ہیں یہ البتہ ٹھیک نہیں ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہم میں کوئی بھی شخص بے کار بیٹھنے کے قابل تو ہے ہی نہیں مگر ہم نے اپنی عادات کچھ ایسی بنا لی ہیں کہ جو ہمارے وقت کا بے کاری میں گزارنے کی عادت بنا لی ہے۔ اگر دیکھیں تو کوئی بھی شخص بے کار نہیں رہ سکتا ،۔ اگر آپ بڑے زمیندار ہیںاور آپ کے کارندے آپ کی زمینوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں تو بھی آپ اُن کی نگرانی کےلئے بھی اپنی زمینوں پر جا سکتے ہیں۔ اور آپ کارخانہ دار ہی تو بھی آپ بے کار نہیں بیٹھ سکتے آپ اپنے کارخانے میں کام کرنے والوںکے ہلا شیری کے لئے بھی جا سکتے ہیں اور یہ بھی کہ اگرآپ اپنے کارخانے کی نگرانی کر رہے ہیں تو آپ کے کارندے زیادہ محنت سے کام کرتے نظر آئیں گے اور آپ ان کی ہلا شیری کریں گے تو یہ آپ کے کارندوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنے گی اور یہ کہ کارندے جب اپنے مالک کو اپنے پاس پائیں گے تو ان کی استعداد کار میں اضافہ ہو گا۔ اس لئے نہیں کہ وہ ا ٓپ کے ڈر سے کام کریں گے بلکہ وہ آپ کے ہونے سے حوصلہ افزائی حاصل کریں گے اور اپنے کام میں بہتری لائیں گے ۔ اور اگر آپ ان کی ہلا شیری بھی کریں گے تو وہ اور بہتر طریقے سے کام کریں گے۔ اور اگر آپ ایک مزدور ہیں تو بھی آپ اپنے کام میں بہتری کی کوشش کریں گے تو یہ آپ کے ملک کی بہتری کی صورت میں نکلے گا۔ اگر آپ کوئی بھی کام اپنی خاطر ہی دل جمعی سے کریں گے تو یہ آپ کے ملک کی ہی خدمت ہو گی ۔ اس لئے ہ ایک فرد کا کام بھی دراصل ملک کا ہی کام ہوتا ہے ۔ ہم جس کام کو اپنا سمجھ کر کر رہے ہوتے ہیں وہ بھی دراصل ہمارے ملک ہی کی بہتری کےلئے ہوتا ہے اور یوں ایک فرد کا اپناکام بھی اصل میں ملک ہی کی خدمت ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنے کھیت میں پوری محنت سے کا م کر رہے ہیں تو یہ آپ کے ملک ہی کی خدمت ہے اس لئے کہ آپ ملک کے ایک خاندان کو سنبھال رہے ہیں جو در اصل ملک ہی کی خدمت ہے۔