سینٹ الیکشن اور وزیر اعظم کا اعتماد کا ووٹ۔۔۔

سینٹ الیکشن کے ساتھ ہی پارلیمنٹ کی تکمیل کا مرحلہ بھی پورا ہوگیا ہے ویسے تو ان انتخابات میں کچھ نیا نہیں ہوا، سینیٹ کا کمال یہ ہے کہ نتائج کچھ حیران کن اور کچھ پریشان کن آتے ہیں‘ اس بار بھی صوبوں میں حسب توقع نتیجہ سامنے آیا ہے، مگر وفاقی دارالحکومت کی ایک نشست پر توقع کے خلاف ایک بڑا اپ سیٹ ہوا ہے‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل نشست پر اپوزیشن اتحاد کا مرد امیدوار، سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی جیت گئے، ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے جبکہ خاتون نشست پر مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والی خاتون امیدوار کو، یوسف رضا گیلانی کو اضافی ملنے والے ووٹ نہیں مل سکے اس کا مطلب ہے کہ پیپلز پارٹی نے حکومتی پارٹی کے جن ارکان قومی اسمبلی سے بات کی تھی، ان کو خاتون امیدوار کو ووٹ دینے کا نہیں کہا، اس طرح ایک نشست حکومت نے اور دوسری اپوزیشن نے جیت لی ویسے تو گنتی میں یہ ایک سیٹ ہی ہے، لیکن چونکہ قومی اسمبلی میں ون ٹو ون مقابلے میں حکومت کی شکست کو کچھ حلقے وزیراعظم کی شکست کے مترادف قرار دیتے رہے اسلئے وزیر اعظم کو اس کا دو ٹوک جواب اعتماد کے ووٹ کی صورت میں دینا پڑا اور اب جبکہ وزیر اعظم نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ہے تو سیاسی حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں ، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ سینٹ الیکشن کے بعد اب اگلا مرحلہ سینٹ چیئرمین کا ہے اس لئے آئندہ ہفتے سینٹ کے چیئرمین کا الیکشن بھی دلچسپ ہو گیا ہے‘ صادق سنجرانی 2018 کے سینیٹ الیکشن میں اچانک سامنے آئے تھے، بلکہ سینٹ الیکشن سے کچھ ہفتے پہلے ہی بلوچستان میں مسلم لیگ ن کے وزیراعلیٰ ثناءاللہ زہری کے خلاف بغاوت ہو گئی تھی، اور بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے ایک نئی پارٹی وجود میں آگئی تھی. اس نئی پارٹی کے امیدوار صادق سنجرانی سینیٹر منتخب ہوئے اور پھر اپوزیشن کے امیدوار میر حاصل بزنجو کے مقابلے میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے مشترکہ امیدوار، صادق سنجرانی کامیاب ہوئے تھے اس کے بعد 2019 میں متحدہ اپوزیشن نے سینٹ میں اپنی عددی طاقت دیکھ کر چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی۔ لیکن غیر متوقع طور پر یہ تحریک ناکام ہو گئی مبینہ طور پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے سینیٹرز نے تحریک کے خلاف ووٹ دیا اس کے بعد اپوزیشن نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا سوچنا بھی چھوڑ دیا تھا موجودہ سال شروع ہوتے ہی اپوزیشن نے (پی ڈی ایم) پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی بنیاد رکھی اور حکومت سے عدم تعاون کا اعلان کیا، ساتھ ہی عوامی طاقت سے حکومت کو گرانے کی تحریک شروع کی تو اسمبلیوں سے استعفے دینے اور لانگ مارچ کرنے کا بھی اعلان کیا، مگر حکومت نے جب کورونا کے باعث زیر التوا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کرانے کا اعلان کیا تو اپوزیشن نے پیپلز پارٹی کی تجویز پر ان انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ساتھ ہی سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ اس طرح مسلم لیگ ن اور جے یوائی کی عوامی تحریک اور پارلیمانی سیاست کی بجائے سٹریٹ پاور سے حکومت کو گرانے کے فیصلے کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زرداری نے پارلیمنٹ کے اندر جوڑ توڑ کی طرف موڑ لیا۔ پیپلزپارٹی نے سینیٹ کےلئے اسلام آباد کی نشست پر یوسف رضا گیلانی کو کھڑا کرکے یہ تجربہ کیا کہ وہ قومی اسمبلی میں بھی حکومتی ممبران توڑ سکتے ہیں بلکہ آصف زرداری نے مولانا فضل الرحمان کو بھی قائل کر لیا تھا کہ اگر یوسف رضا گیلانی جیت جاتے ہیں تو پھر پی ڈی ایم عدم اعتماد کا کھیل شروع کرےگی مگر اب وزیراعظم نے از خود ہی اعتماد کا ووٹ لے کر کم از کم چھ ماہ کےلئے اپوزیشن کو روک دیا ہے مگر اپوزیشن اب ممکنہ طور پر پنجاب میں وزیر اعلی عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد لائے گی اور اپوزیشن کی کوشش ہوگی کہ صوبائی اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الہی کو ساتھ ملانے کےلئے وزارت اعلیٰ کی پیشکش کرے لیکن بظاہر حالیہ سینیٹ انتخابات کے موقع پر تحریک انصاف نے اپنے کوٹے سے ،ایک نشست مسلم لیگ ق کو دے کر چوہدریوں کو راضی کر لیا ہے، اس لیے یہ توقع نہیں کہ اتنی جلدی وہ اپوزیشن کی باتوں میں آجائیں گے ویسے بھی اب گجرات کے چوہدری عمران خان سے اتحاد کے بعد سیاسی طور پر جو کچھ حاصل کر چکے ہیں، وہ ان کی سوچ سے بھی بڑھ کر ہے۔