قربانیوں کی تلافی اور محرومیوں کا ازالہ ضروری

 سیاستدانوں کے وعدے عام طور پر وفا کرنے کے لئے نہیں ہوتے، اکثراوقات انتخابات کے دوران دکھائے گئے سبز باغ حقیقت میں اجڑا دیار ثابت ہوتے ہیں لیکن صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کے عوام کو جو خواب دکھائے تھے ان میں یہ بھی تھا کہ سیاسی نمائندگی سے ان کی آواز اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے گی، ریاست کے ستون اور وفاق کی اکائیاں ہم آواز تھیں‘ خیرسگالی کا یہ عالم تھا کہ وفاق اور تینوں صوبوں نے قومی مالیاتی ایوارڈ میں اپنے حصوں میں سے 3 فیصد انضمام شدہ قبائلی اضلاع کی ترقی کے لئے دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن سب وعدے روایتی محبوب کے وعدے ثابت ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ محرومی اور مایوسی ایک بار پھر ان اضلاع میں پھیل رہی ہے۔ صوبائی حکومت اپنے وسائل کی حد تک تو کوشش کر رہی ہے، وزیر اعلیٰ محمود خان نے ترقی کے ڈھانچے کو بحال کرنے، صنعتوں کے قیام کے لئے مناسب جگہوں کی تلاش اور مراکز صحت اور تعلیمی اداروں کی تعمیر و ترقی کے لئے ہدایات دے رکھی ہیں، لیکن ظاہر ہے سب کچھ نیا تعمیر ہونا ہے تو وسائل بھی اضافی درکار ہوں گے۔ گزشتہ تین سالوں سے وفاق اور تین صوبوں نے این ایف سی ایوارڈ میں سے حسب وعدہ کچھ نہیں دیا۔ وفاق، پنجاب اور بلوچستان نے انکار تو نہیں کیا، لیکن صوبہ سندھ نے 3 فیصد دینے سے انکار بھی کر دیا ہے، یہ رویہ مناسب نہیں ہے۔ صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن عوام کے ایک دوسرے پر حقوق اور ایک دوسرے کا احساس وفاق کی مضبوطی کی ضمانت ہوتے ہیں جس وقت سابقہ فاٹا کے اضلاع کے صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام اور قبائلی علاقوں کے محرومی ختم کر کے دیگر صوبوں کے برابر لانے کا فیصلہ ہوا تھا‘ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی ہی حکومت تھی‘ اس لئے موجودہ حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ وعدہ کسی دوسری حکومت نے کیا تھا، یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ انضمام کے فیصلے سے قبل وفاقی حکومت  نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی تھی، جس نے ایک سال سے زائد وقت لگا کر اس حوالے سے جامع رپورٹ تیار کی تھی، سابق وفاقی وزیر سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم اس کمیٹی کی سفارشات پر قومی اسمبلی میں بحث مباحثہ کے بعد انضمام کے لئے آئینی ترمیم ہوئی تھی، یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی قبائلی علاقوں کے انضمام اور ان کی ترقی کے لئے پرجوش تھی لیکن اب اپنے وعدے پورے کرنے سے انکار سمجھ سے باہر ہے بلکہ اس سے ضم شدہ اضلاع کے عوام کو منفی پیغام مل رہا ہے جہاں تک وفاق اور پنجاب کا تعلق ہے تو ان کے پاس بھی کوئی جواز نہیں کہ این ایف سی ایوارڈ میں سے تین فیصد اضافی صوبہ خیبر پختونخوا کو نہ دیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع کے عوام تحریک انصاف کے حامی ہیں اور حالیہ ضمنی الیکشن میں بھی ضلع کرم کی واحد نشست تھی جس پر تحریک انصاف کا امیدوار کامیاب ہوا، یہ علامت ہے اس بات کی کہ ابھی قبائلی عوام حکومت سے مایوس نہیں ہوئے، دنیا میں امن کے قیام اور جرائم کے خاتمے کے لئے سکول اور کارخانے تعمیر کئے جاتے ہیں، جب بچے تعلیم حاصل کرنے اور ان کے بڑے کسی تعمیری کام اور پیداواری سرگرمیوں میں مصروف ہوں تو جرائم خود بخود کم ہو جاتے ہیں،پاک فوج نے سول انتظامیہ اور عوام کے تعاون سے بڑی جنگ کے بعد ان علاقوں کو دہشت گردوں سے کافی حد تک صاف کیا ہے، مگر ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ، صنعتی علاقوں کی عدم دستیابی اور کاروباری سرگرمیوں کی کمی سے ایک بار پھر دہشت گردی اور جرائم میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ ”علاقہ غیر“سے ”علاقہ خیر“ کا سفر بہت کٹھن تھا، قبائلی عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں اور یہ سب پورے ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے قربانیاں تھیں، یہ کل کی بات ہے کہ کس طرح سارا ملک دہشت گردوں کے نشانے پر تھا، اس لئے قبائلی عوام کا حق ہے کہ ان کو یہ احساس دلایا جائے کہ پاکستان کے عوام ان کے ساتھ ہیں، ان کی قربانیوں کی قدر کرتے ہیں۔ اس کا واحد اور موثر طریقہ یہ ہے کہ کم ازکم این ایف سی ایوارڈ میں سے اتنا تو اضافی فنڈز دیا جائے جس کا پوری قوم کے سامنے وعدہ کیا گیا تھا۔