ہمارے انتخابات میں ابھی تک وہ درجہ نہیں پہنچا کہ جب کوئی بھی امیدوار بغیر تگ و دو کے انتخابات میں کامیا بی حاصل کر سکے ۔ ایک تو ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ہے اور دوسرے ابھی تک ہم برادری سسٹم سے باہر نہیں ہو سکے۔ ہمارے ہاں جنرل ایوب خان کے زمانے میں کو بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات ہوئے ان کی وجہ سے ہمارے گاو¿ں گوٹھوں میں جو ایک اتحادد اور برادری کی فضا تھی اُس کو بڑا دھچکا پہنچا ۔ اسلئے کہ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے جو برادری سسٹم تھا اُس نے آزادی کےساتھ کسی بھی ممبر کو چننے کا حق چھین لیا۔ گاو¿ں میں تو تھوڑی سی آبادی ہوتی ہے جو ایک دوسرے کےساتھ برادرانہ تعلقات استوار رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں شادی غمی مشترک ہوتی تھی اس میں کوئی تخصیص نہیںتھی کہ کس کا ماتم ہے یا کس کی شادی ہے۔ دونوں صورتوں میں گاو¿ں کے لوگ یک جان ہوتے تھے۔ شادی والے گھرمیں مہمانوں کےلئے چارپائیوں اور بستروں کا بندوبست کرنا گاو¿ں والوں کے فرائض میں شامل ہوتا تھا۔ شادی کے اگلے دن کی جب مہمانوں نے شادی والے گھر آنا ہوتا تھا تو گاو¿ں کے نوجوان ان کےلئے سارے گاو¿ں سے چارپائیاں اوربستر اکٹھے کر کے شادی والے گھر لاتے تھے تا کہ مہمانوںکے سونے کا بندوبست ہو سکے۔ اسی طرح رات اورصبح کی کھانے اور ناشتے کا بندوبست بھی گاو¿ں ہی کے نوجوانوں کے سپرد ہوتا تھا جو وہ بڑی خوشی سے انجام دیا کرتے تھے۔ پورے گاو¿ں سے گھر گھر جا کر چاپائیاں اور بستر اکٹھے کر کے شادی والے گھر لے جانا اور مہمانوں کی خاطر داری کرنا یہ گاو¿ں کے نوجوانوں کے سپر د ہوتا تھا۔ جو وہ بخوبی سرانجام دیا کرتے تھے۔ اسی طرح مہمانوںکو سنبھالنا بھی گاو¿ں والوںہی کی ذمہ داری ہوتی تھی اور شادی والے گھر والوں کو اس کے خبر بھی نہیں ہوتی تھی کہ کس طرح مہمانوں کو سنبھالا گیا اور کس طرح شادی کے سارے کام انجام کو پہنچے۔ کبھی کسی طرف سے گلہ نہیں ہوا کہ شادی میںکسی مہمان کی مہمانداری میں کوئی فرق آیا ہو۔ شادی کی دعوت میں بھی سارے گاو¿ں کے چھوٹے بڑے مل کر یہ کام انجام دیا کرتے تھے۔کسی بھی ماتم یا شادی میں گھر والوں کا کبھی کوئی چنتا نہیں ہوتی کہ ان کے مہمانوںکو کیسے سنبھالا جائے گا۔ شادی کے کا ولیمہ بھی گاو¿ں کے نوجوانوں کے سپرد ہوتا تھا اور وہ کھانا پکوانے سے لے کر اُس کی تقسیم تک برابر کے شریک رہتے تھے اور کبھی بھی شادی والے گھر والوں کو کسی مہمان نے کبھی یہ شکوہ نہیںکیا کہ اُس کی مہمانداری میں کوئی کمی آئی ہے۔ سارے گاو¿ں والوں کی غمی اور شادی سانجھی ہوتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ ایوب خان صاحب کی حکومت نے بنیادی جمہوریتوں کی داغ بیل ڈالی۔بنیادی جمہوریتوں میں گاو¿ںکے اراکین کو چننا تھا کہ وہ آگے جا کر بڑے ایوان کےلئے نمائندے چنیں۔ جب ووٹوں کا سلسلہ گاو¿ں کی حد تک آیا تو ظاہر ہے کہ اس میں لوگوں کو اپنی مرضی سے اراکین چننے تھے اور جہاں تعلیم کی کمی ہواور برادری سسٹم عروج پر ہو تو ایسے میں گاو¿ں سے ممبر چننا ایک دوسرے سے خفگی ڈالنے کے برابر ہی ہو گا۔ اور یہی ہوا کہ جس گاو¿ں میں ہر کام برادری سسٹم سے ہو رہا تھا وہاں ووٹوں نے گھر گھر میں نا اتفاقی کو جنم دیا۔ وہ گاو¿ں کہ جہاں ہر کام مل جل کر کیا جاتا تھا اب اسی گاو¿ں میں ووٹ نہ دینے اور ووٹ دینے نے تفرقہ بازی کا اہتمام کر ڈالا اور وہی گاو¿ں والے جو شادی اورغمی میں ایک ہوا کرتے تھے وہ قبیلوں میںبٹ گئے دن گزرنے کےساتھ ساتھ یہ فاصلے اور بھی بڑھنے لگے اور اب ایک دوسرے کی غمی شادی میں شرکت بھی مسئلہ بن گئی۔ اب جس گاو¿ں میں شادی یا غمی والے گھر کا سارا بوجھ پورا گاو¿ں اٹھاتا تھا اس گاو¿ں میں ہر ایک کو اپنا اپنا ہونا پڑا۔ جس نے الیکشن میں کسی کو ووٹ ڈالے وہ بھی بد نام ہوا اور جس نے نہیں ڈالے وہ بھی بد نام ہوا۔حکومت نے تو یہ سوچ کر ایک سسٹم شروع کیا تھا کہ اس سے پوری عوام کو اپنے نمائندے چننے کا موقع ملے گا اور وہ حکومت میں حصہ دار ہوں گے اس کا الٹا اثر ہوا اور گھر اور گاو¿ں گاو¿ں میں نا اتفاقی نے جنم لے لیا۔ اور جو لوگ ایک جسم تھے وہ قبیلوں میں بٹ گئے اور سانجھی غمی شادی کہیں خواب کا قصہ بن گئی۔