پاکستان ایک غریب ملک ہے ۔ایک غریب ملک میںجو کچھ خوراک کے ساتھ ہورہاہے اس سے تو لگتا نہیں کہ ہم ایک غریب ملک کے باسی ہےں۔ جتناکھانا ہم ایک وقت میں ضائع کرتے ہیں اس سے کتنے ہی لوگوں کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔ ادھرکھانا کوڑے کے ڈھیروں پر پڑا ہوتا ہے ادھر کتنے ہی خاندان ہیں کہ جو رات کو بھوکا سوتے ہیں۔ہم چھوٹے تھے توہمارے ملک میں بھوک کا راج تھا۔ کوئی دن جاتا ہو گا کہ رات کو اور دوپہر کھانے کے وقت بیسیوں محتاج لوگ گھر گھر کھانا مانگتے نظر نہ آتے ہوں ۔ امی فرمایا کرتی تھیںکہ اپنے کھانے سے کم ازکم تین چار لقموں کی روٹی بچا کر رکھیں ہو سکتا ہے کہ کوئی بھوکا انسان آپ کے دروازے پر مانگنے آ جائے اور اگر اس کو مایوس واپس جانا پڑے۔ گھر کے دروازے سے کسی بھی مانگنے والے کا مایوس جانا اچھا نہیں ہوتا۔ ہمیں یاد ہے کہ اگر ہمارے ہاتھ سے روٹی کا کوئی ٹکڑا گر جاتا تو ہم اُسے اٹھا کر چوم کر یا کھا لیتے یا اس کو واپس چنگیر میں رکھ دیتے کہ اگر کوئی مانگنے والا آئے تو اس کو دے دیں۔ اسی طرح مانگنے والے دن بھر آتے رہتے تھے کوئی روٹی مانگتے اور کوئی آٹا یا دانہ مانگتے۔ اس لئے ہم اپنی چنگیر کو کبھی خالی نہیں چھوڑتے تھے تا کہ کوئی بھی بھکاری ہمارے دروازے سے مایوس نہ لوٹے۔ اگر بھکاری کھانے کے وقت کے بعد یا پہلے آتا تو اُسے گھر سے آٹا یا غلہ دیا جاتا تھا۔ بہت کم ایسا ہوتا کہ کوئی بھکاری ہمارے دروزے سے خالی ہاتھ لوٹا ہو۔ اگر کھانے کاوقت نہیں ہے تو مانگنے والے کو آٹا یاغلہ دیا جاتا تھا۔ کوشش یہی ہوتی تھی کہ کوئی بھی دروازے پر آنے والا خالی ہاتھ نہ جائے۔گو لوگ اتنے امیر نہ تھے مگر پھر بھی کسی بھی مانگنے والے کو اپنے گھر سے خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے تھے۔ ایک اور بات جو ہمیں اپنے بچپن کی یاد ہے وہ یہ کہ بہت سے مانگنے والے آٹا یا دانے مانگتے تھے۔ ان میں زیادہ تعداد ہمارے گاو¿ں کے باہر سے آتے تھے ۔ اور وہ عموماً روٹی نہیں لیتے تھے ۔ یہ عموماً گاو¿ں سے باہر ڈیرے ڈالتے تھے اور دو چار ماہ وہاں رہ کر واپس چلے جاتے تھے۔ اس دوران ان کے مرد تو کچھ نہ کچھ کام کرتے تھے اور اُن کے بچے اور عورتیں عموماً گھر گھر سے کھانایا آٹا وغیرہ مانگتے تھے۔ یہ لوگ عموماً خانہ بدوش ہوتے تھے۔ اب ایک عرصے سے لوگ بہت کم مانگنے والے آتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اب ہر شخص کو کوئی نہ کوئی کام کرتا ہے اور ہر شخص کو اپنے خاندان کو پالنے کےلئے کام مل جاتا ہے۔ اسی لئے مانگنے والے لوگوں میں کمی آ گئی ہے۔ایک آدھ خاندان ایسا بھی آیا کرتا تھا کہ جن کا پیشہ ہی مانگنا تھا۔ ایسے کولوگوں کو ہم پھیری والا فقیر کہاکرتے تھے۔ یہ لوگ رات تو مسجد میں سو کر گزارتے تھے صبح سویرے اٹھ کر گاتے ہوئے ایک دو گاو¿ں سے گزرتے تھے عموماً ان کا گانا ہوتا تھا ،” ایہہ رنگ سدا نینھ رہن±ڑاں نگری میں بول “ صبح اور دوپہر کو یہ گاتے ہوئے گزرجاتے تھے اور تیسرے پھیرے میں وہ گھر گھر سے آٹا یا دانے لیا کرتے تھے۔ پہلے دو پھیروں میں گھر والوں کو معلوم ہو جاتا تھا کہ اب یہ فقیر آٹا یا دانے لینے آئے گا۔ اس لئے وہ ان کےلئے آٹا یا دانے تیار رکھتے تھے۔ ایسا بہت کم ہوتا کہ پھیری والا فقیر کسی گھر سے خالی گیا ہو اس لئے کہ سب کو معلوم تھا کہ اسے کچھ نہ کچھ ضرور دینا ہے۔ اب ایک عرصہ ہوا ہے کہ یہ لوگ نا پید ہو گئے ہیں۔ شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ اب ملک میں مزدوری کے مواقع عام ہیں اور ہر شخص کچھ نہ کچھ کما لیتا ہے اسلئے فقیروں ( گداگروں) کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔اب ایک زمانے سے پھیری والے فقیر کی آواز کو کان ترس گئے ہیں۔ وہ گایا کرتاتھا کہ” ایہہ رنگ سدا نینھ رہن±ڑاں نگری میں بول“۔ ایک اور بات عرصے سے نظر نہیں آتی کہ اگر کسی کو کوئی روٹی کا ٹکڑا رستے میں پڑا نظر آتا تو وہ اسے پھونک اور چوم کر یا کھا لیا جاتا تھا یا اُسے رستے سے ہٹا کر رکھ دیا جاتا تھا۔ رزق کو اسی طرح عزت دی جاتی تھی کبھی یہ نہیںدیکھا تھا کہ رستے میں کوئی روٹی کا ٹکڑا پڑا ہو اور بندہ اُسے دیکھ کر نظر انداز کر کے گزر گیا ہو۔ مگر اب وہ باتیں خواب خیال ہیں شاید اس لئے کہ اب ملک کے باسی گھرانے کھاتے پیتے ہو گئے ہیں۔ اس لئے رزق کی عزت سے محروم ہو گئے ہیں۔مگر اب بھی بہت سے گھرانے بھوکے سوتے ہیں مگر اب اُن کی فکر کرنے والا کوئی نہیں ہے۔