شر کی تاریکی میں، خیر کی چمک۔۔۔

 صبح صبح اخبار دیکھنا پیشہ وارانہ مجبوری کے ساتھ، عادت بن جاتی ہے، حالانکہ اخبار میں خبریں پڑھ کر طبیعت مزید مضمحل اور بوجھل ہوجاتی ہے۔ جھوٹ و ریاکاری یا مکر و فریب کی داستان ہو یا سیاسی شعبدے بازوں کے بلند بانگ دعوے، امن عامہ کا المیہ ہو یا سماجی زندگی کی تباہی کا رونا، رشتوں کی پامالی ہو یا خاندانی اقتدار کی تنزلی، ہر خبر اور تحریر ان ہی برائیوں کا ماتم کرتی نظر آتی ہے۔ کوئی خبر اسلاف کے درخشاں کارناموں یا کردار کے غازیوں کے ذکر خیر اور ان کے کارہائے نمایاں کے تذکرہ کی ہو، تو دل کو ایک گوناں سکون اور اطمینان ملتا ہے۔ یہ کہ حرص و ہوس کے اندھیروں میں، خلوص کی کچھ شمعیں روشن ہیں، جن سے معاشرے میں پیار و ایثار کا سلسلہ قائم ہے۔ اور جب ایسا تذکرہ شروع ہو تو بات شیخ القرآن تک پہنچتی ہے۔ شیخ القرآن، حضرت مولانا محمد طاہر کی توحید و سنت کی تحریک اور ان کی دین حق کی تبلیغ و ترویج کے لیے قربانیاں اور خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں، انہوں نے صوابی کی بستی پنج پیر سے جس تحریک کا علم بلند کیا، وہ تمام تر بے سروسامانی کے، نہ صرف بلند رہا، بلکہ اس کے سائے تلے خدام دین کی ایسی قوت تیار ہوئی، جن کا مطمح نظر دین اسلام کی سربلندی اور توحید و سنت کی ترویج تھا، بیسویں صدی کے اس مرد جری نے جن قلوب میں نور عرفان کے چراغ روشن کیے، ان کا وجود آج بھی تسخیرِقلوب کا باعث ہے۔ شیخ القرآن نے تدریس و تبلیغ کو نہ تو دنیاوی منعفت کا ذریعہ بنایا اور نہ ہی حصول اقتدار کے لیے سیڑھی۔ انہوں نے دنیا سے بے نیازی اختیار کی تو وحدہ لا شریک بے نیاز ذات نے اسباب کے در کھول دئیے، اگر ایک طرف ان کے بیٹے مولانا محمد طیب نے مسند تدریس سنبھال رکھی ہے تو دوسری طرف دوسرے بیٹے میجرعامر نے دنیا داری نبھاتے ہوئے بھی دین کی خدمت کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ گزشتہ دنوں میجر عامر تھاکوٹ میں اپنے عظیم والد شیخ القرآن کے شاگردوں اور رفقاءسے ملنے اور ان کی غمی میں تعزیت کے لیے گئے تو الائی کی ایک ممتاز شخصیت حاجی شیر زادہ نے ان کے اعزاز میں ظہرانہ کا اہتمام کیا، یہ بھی محبت کے انداز ہیں کہ میجر عامر اپنے عظیم والد کے رفقا کی خوشی غمی میں شرکت کو فرض کی طرح نبھاتے ہیں تو جواب میں ان کی راہوں میں بھی، محبت کے پھول نچھاور کیے جاتے ہیں، میجر عامر کی شخصیت کا سحر ایسا ہے کہ اکابرینِ مذہب ہوں یا صاحبانِ قلم و قرطاس، سیاست و صحافت کے شہسوار ہوں یا علم و حکمت کی نابغہ شخصیات، ہر کسی کو اپنی تشنگی بجھانے کے لئے، میجر عامر کی صحبت درکار ہوتی ہے، شیخ القرآن کے شاگرد اور رفقاء تو اپنے شیخ کی نشانی جان کر عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، تھاکوٹ کے ظہرانے میں بھی میجر عامر نے ان رجال کو ہستانی کو خراج تحسین پیش کیا، جنہوں نے شیخ القرآن کی تحریکِ توحید و سنت کو نہ صرف قبول کیا، بلکہ پذیرائی بخشی، اسی نسبت کی وجہ سے وہ کوہساروں اور چٹان کے عزم والے افراد کی بستیوں کو دوسرا پنج پیر اور اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بھی تحریک کے مشن کی کامیابی کا انحصار اگر قائد کی صلاحیت اور خلوص پر ہوتا ہے، تو مخلص رفقاءاور جانثار ساتھی بھی اتنا ہی ضروری عنصر ہوتے ہیں۔ شیخ القرآن کی ابتدائی جدوجہد کا ادراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ ان بے لوث ساتھیوں کی جرات و بہادری تھی، جس سے تحریک کو پذیرائی ملی، ویسے تو حق کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں آتی رہیں، مگر آخری فتح بہرحال حق کی ہوتی ہے، اس کا ایک مظہر پنج پیر تحریک کا پھیلاو¿ ہے۔ میجر عامر کو یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ اپنے والد گرامی کے ساتھیوں کی ہمہ وقت خبرگیری رکھتے ہیں اور ان کی خدمت میں حاضر رہتے، ہیں، اسی جذبے کے تحت شیخ القرآن کے اولین شاگردوں میں سے ایک، مولانا عبدالحئی کی تیمارداری کے لئے حاضر ہوئے، انہوں نے بزرگ عالم دین کے ساتھ کچھ وقت گزارا اور شیخ القرآن کی یادیں تازہ کیں، میجر عامر نے کہا کہ شیخ القرآن نے اپنی زندگی کو سیاست کی آلائشوں اور حکمرانوں کی خوشامد و چاپلوسی سے پاک رکھا اور توحیدوسنت کی تحریک کو دنیاوی مفادات کی آلودگی سے بچا کر رکھا، یہی ان کی تحریک کا امتیازی وصف ہے اور ان کے شاگردوں کےلئے مشعل راہ بھی ہے۔ انہوں نے تحریکی ساتھیوں اور شیخ القرآن کے متعلقین کو یاد دلایا کہ یہی کردار اور بے نیازی کا رویہ ہی شیخ القرآن کے مشن کا امتیاز ہے۔