ہوا کہتی ہے مجھ سے یہ تما شا کیسا لگتا ہے 

پھاگن کے بادلوں کو بہت دیر سے یاد آیا ہے کہ انہیں گرجنا اور برسنا بھی ہے اگر چہ اس موسم کا مزاج شدت کی بارشوں والا تو نہیں ہوا کرتا لیکن موسم کو کروٹ بدلنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے‘ فراز نے کہا ہے کہ
یوں ہی موسم کی ادا د یکھ کے یاد آ یا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں 
اس لئے موسم میں ہونے والی تبدیلی کا بھید بھی کوئی نہیں پا سکتا، اب پھاگن اور دو دن کا مہمان ہے اس لئے وہ جانے سے پہلے اپنے بادلوں کی چھاگلیں خالی کرنے لگا ہے اور موسمیات کے منجم بھی ژالہ باری اور تیز بارشوں کی پیشگوئی کرنے لگے ہیں پھاگن نے اپنی یہ سرگرمی دکھا کرپھر اپنی عملداری پھولوں کے کھلنے کے معطر مہینے چیت کے حوالے کر دینی ہے جو مارچ کے وسط سے اپریل کے وسط تک اپنی بہار دکھائے گا، پشاور کے آسمان پر بادلوں کے میلے تو خوب لگتے ہیں گزشتہ دو دن سے بادلوں کی گرج بھی سنائی دے رہی ہے مگر بارشوں کی ساری شدتیں پشاور سے چند گام پہلے ہی اپنا رخ تبدیل کر کے چراٹ کے پہاڑوں کی سیر کو نکل جاتی ہیں، تیز بارشیں کہیں بھی ہوں پشاور کا موسم بدل جاتا ہے، اب کے بھی گزشتہ دو دن سے موسم کی خنکی میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے،جن لوگوں نے اپنی تقریبات ہالز کی بجائے کھلے میں ترتیب دے رکھی تھیں انہیں تشویش لاحق ہو گئی کہ کہیں ان کا حال چند ہفتے پہلے کھلے میں ہونے والی ان تقریبات کا سا نہ ہو جائے جن میں کچھ کی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھیں کہ کس طرح اچانک اور غیر متوقع ہونے والی ژالہ باری کی وجہ سے تقریب کے مدعوئین بھاگ کھڑے ہوئے اور کھانے کی ڈشز برف کے گولوں سے بھر گئی تھیں، کچھ لوگوں نے اس کے حوالے سے یہ کمنٹس بھی کئے تھے کہ منتظمین نے موسمی پیشگوئی کو دیکھے بغیر آخر کھلے میں دعوت کا اہتمام کیوں کیا تھا، خیر باہر کی دنیا میں توموسمی پیشگوئیاں دیکھنا ان کی روزمرہ سرگرمیوں میں شامل ہے لیکن وہاں بھی بسا اوقات موسم کی تبدیلی سو فیصد اس طرح نہیں ہوتی جس طرح کہ پیشگوئی میں کہا گیا ہوتا ہے، مجھے یاد ہے کہ ایک جب میں میسا چیوسٹ کے کیپ کاڈ جزیرے کے خوبصورت قصبے ’ساؤتھ یار متھ‘ میں دوست مہربان عتیق احمد صدیقی کا مہمان تھا،تو ایک بہت ہی خوفناک طوفان کی پیشگوئی ہو ئی تھی،جس کے لئے خصوصی اقدامات کئے جارہے تھے، خود عتیق صدیقی کے کیپٹن جوناتھن موٹل میں صبح شام مختلف محکموں کے اہل کارآتے اور پانی بجلی گیس کی تنصیبات چیک کرتے تھے سوئمنگ پول بھی بند کر دیا گیا تھا، ایک عجیب پے نک پھیلا ہوا تھا، ٹی وی پر اپنے لوگوں کو احتیاط کی ہدایات دی جا رہی ہیں، چار قدم پر سمندر کی موجودگی بھی طوفان کے خوف کو بڑھا رہی تھی، جس دن، رات کے آٹھ بجے کے لئے یہ پیش گوئی کی گئی تھی اس دن کی شام میں اور عتیق صدیقی ہوٹل کی پچھلی طرف سمندر کی طرف جانے والے درختوں سے گھرے ہوئے راستے پر واک کرنے گئے تھے، موسم بالکل نارمل اور ہوا رک رک کر چل رہی تھی، مجھے خیال آیا کہ ابھی گھنٹہ بھر بعد طوفان کی آمد کی پیش گوئی ہے مگر کیا خبر طوفان چند لمحے پہلے ہی آ جائے اور ہم راستے میں ہوں،بس اتنا ہی سوچا تھے کہ رکی ہو ئی ہوا چلنے لگی اور جلد ہی اس میں ہوا میں تیزی بھی آنے لگی تب غیر محسوس طریقے سے ہماری رفتار میں بھی تیزی آ گئی تھی، مگر غنیمت ہے کہ ہم بر وقت واپس پہنچ گئے جہاں بھابھی کھانے پر انتظار کرہی تھیں ان کو بھی یہی فکر تھی کہ بر وقت کھانا ہو جائے، سب لو گوں کی سب تیاریاں مکمل تھیں آٹھ بجے طوفان کا شور سنائی دینے لگا مگر گھن گرج کوئی بہت خوفناک نہ تھی اور نو بجنے تک موسم پھر سے نارمل ہو گیا تھا، مجھے میرؔ یاد آگئے
امید وار دعدہ ئ دیدار مر چلے
آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا
ہر چند اس طوفان نے کچھ اور ریاستوں خصوصاََ فلوریڈا کے ساحلوں پر بہت تباہی مچائی تھی مگر اس ریاست میں ایسا کچھ نہ ہوا جس کی پیشگوئی کی گئی تھی، دوسرے دن ٹی وی پر موسمیات کے محکمے کا خوب محاکمہ ہواکہ طوفان کی شدت کا اندازہ صحیح نہیں لگا یا گیا ابھی دو دن پہلے افراز نے ایسی ہی موسمی پیشگوئی مجھے سینڈ کی ہے جس کے مطابق ایک بہت بڑا برفانی طوفان ان کے شہر ڈینور (کولوراڈو) کی طرف بڑھ رہا ہے، اور پیش گوئی یہ بھی ہے کہ گزشتہ نو برس میں آنے والے سارے برفانی طوفانوں سے اس کی شدت بہت زیادہ ہو گی، ظاہر ہے اب اس کے لئے بھی علاقے کے سارے متعلقہ محکمے اپنے اپنے طور پر تیاری کر رہے ہوں گے کیونکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اب کے مسلسل تین دن سے زیادہ تک مسلسل برفباری ہو گی، برفانی علاقوں کے رہنے والے جانتے ہیں کہ برف جب مکانوں کی چھتوں پر مسلسل پڑتی ہے تو مکینوں کے لئے کیا کیا پریشانی لے کر آ تی ہے، ان علاقوں میں کتنی بھی برف باری ہو آمد و رفت کی ساری شاہراہوں کو سا تھ ساتھ صاف کیا جارہا ہوتا ہے تاکہ لوگوں کو دفاتر،سکولوں اور مارکیٹ تک آنے جانے میں کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے مگر گھروں کی چھتوں اور خاص طور پر گھروں کے سامنے کے راستے (ڈرائیو وے) سے برف ہٹانے کی ذمہ داری ہر مکین کی اپنی ہو تی ہے۔ جو ایک دقت طلب کام ہے، ایک بار اپ سٹیٹ نیویارک میں جب میں اور عتیق صدیقی ایسے ہی برفانی موسم میں دوست عزیز شاعر اور کالم نگار ڈاکٹر عامر بیگ کے فارم ہاؤس رات گئے پہنچے تھے، تو برف اتنی تھی کہ ہمیں برف کے پہاڑوں کے بیچ کے درے سے گزر کر گھر میں داخل ہو نا پڑا کیو نکہ ان کے گھر کا ڈرائیو وے کم و بیش قد آدم گہرائی پر تھا، ان کے خوبصورت کاٹیج میں گزاری ہوئی وہ بھی ایک یاد گار اور خوبصورت رات تھی، باہر برف کی حکومت تھی اور ہم نے وہ رات ساٹھ کی دہائی میں بننے والی گرو دت کی فلم ’صاحب بی بی اور غلام کے لئے آشا بھوسلے کا گایا ہوا گیت”ساقیا آج مجھے نیند نہیں آئے گی۔ سنا ہے تیری محفل میں رت جگا ہے“ کئی بارسنتے ہوئے گزاری، لیکن ان علاقوں میں رہنے والے موسوموں کی اس شدت کے عادی ہیں اور ان کے لئے موسم میں تبدیلی ایک روزمرہ کی کاروائی ہے پھر بھی جب برفانی طوفان کی پیش گوئی ہو تی ہے تو خواہی نخواہی ایک وہم سا دل کو مسلسل گھیرے رکھتا ہے اور اگر کوئی شخص میری طرح وزٹ پر گیا ہوا ہو تو اس کیلئے یہ صورتحال کچھ زیادہ ہی پریشانی کا باعث بن جاتی ہے‘ہمارے دیسی مہینے اگر چہ عموماًایک لگے بندھے ٹائم ٹیبل کے مطابق ہی آتے جاتے ہیں لیکن پھر بھی موسم میں رونما ہونے والی تبد یلی ہمیں کھلنے لگتی ہے، تیز بارشوں کی پیشگوئی جانے کہاں کے لئے ہے مگر پشاور کے آسمان پر بادلوں نے خوب میلے لگا رکھے ہیں،ہوا میں خوشگوار خنکی بھی ہے عبد الحمید کی طرح میں بھی اسی تجربے سے گزر رہا ہوں۔
 فلک پر اڑتے جاتے بادلوں کو دیکھتا ہوں میں 
 ہوا کہتی ہے مجھ سے یہ تما شا کیسا لگتا ہے