میں نے وہ زمانہ دیکھا ہے جب پاکستان میں کیسی کیسی دلربا اور حسین شہزادیاں ہوا کرتی تھیں جنکے حسن میں چار چاند توکیا بے شمار چاند لگتے جاتے تھے اور ان شہزادیوں میں پاکستان ریلوے‘ پاکستان ٹیلی ویژن‘ واپڈا‘ پاکستان سٹیل مل کے علاوہ پی آئی اے کی شہزادی بھی ہوا کرتی تھی...اور یہ پاکستان کے اولین دور کے سنہری زمانے ہوا کرتے تھے حکمران کرپٹ نہ ہوتے تھے‘ قائداعظم بطور گورنر جنرل پاکستان اگر اپنے لئے ڈاکٹر کا تجویز کردہ کھانا تیار کرواتے تھے تو وہ اسکی قیمت اپنی جیب سے ادا کرتے تھے کہ حکومت کی جانب سے مہیا کردہ خوراک پر تو میرا حق بنتا ہے لیکن اگر خصوصی باورچی بلائے جاتے ہیں اور میری صحت کی بہتری کیلئے وہ خصوصی کھانے بناتے ہیں تو انکے اخراجات پاکستان کیوں ادا کرے یہ میری ذمہ داری ہے... آپ بتایئے کہ لیاقت علی خان‘فیروزخان نون‘ محمد علی بوگرہ‘ چوہدری محمد علی‘ حسین شہید سہروردی نے اپنے ورثے میں کیا چھوڑا...لیاقت علی خان کے بیٹے معمولی ملازمتیں کرتے رہے اور ان میں سے ایک تو طبلہ نواز بھی تھا‘ سردار عبدالرب نشتر کے بچے لاہور کے گورنر ہاﺅس سے سائیکلوں پر سکول جاتے تھے... صدر سکندر مرزا جب جلاوطن کئے گئے تو لندن میں ایک کرائے کے فلیٹ میں مقیم رہے‘ ان کے نصیب میں مے فیئر کے سینکڑوں کروڑوں کے متعدد فلیٹ نہ تھے ..سکندر مرزا کی بےگم ناہید لندن کے ٹھیلوں سے سستی سبزی خریدتی تھیں اور بھاﺅ تاﺅ کرتی تھیں ہزاروں ہیں شکوے کیا کیا سناﺅں... میرے پاس اکثر صبح کی سیرکے دوران ملک بھر سے ایسے نوجوان آتے ہیںجو پاکستان کیلئے فکر مند ہوتے ہیں‘ مجھ سے سوال پوچھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سر کیا پاکستان ہمیشہ سے ایسا تھا؟ اور میں کہتا ہوں نہیں جب پاکستان وجود میں آیا تو دنیا بھر میں امیدوں کے چراغ جل اٹھے... ایک نئی سلطنت وجود میں آئی ہے جسکی سربراہی جناح ایسا روشن دماغ اورروشن خیال سٹیٹس مےن کررہا ہے... ہندوستان تو اپنے مذہب کی جاہلانہ رسوم کی تاریکی میں گم رہے گا‘ اپنے قدیم تعصبات کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھاتا رہے گا جبکہ یہ نیا ملک پاکستان دنیا بھر میں ترقی‘ بالغ النظری‘ نسلی اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہو کر ایک مثال ہوگا اورپاکستان واقعی ایک مثال ہوا... اسی زمانے میں یہ سب ریلوے‘ ٹیلی ویژن‘ واپڈا‘ سٹیل مل اور پی آئی اے وغیرہ ایسی شہزادیاں تھیں جنکی کارکردگی‘ جدت اور ایمانداری کی مثال پوری دنیا میں نہ ملتی تھی پاکستان ریلوے ایک شاندار ثقافت تھی اسکی گاڑیاں سبک خرام اور وقت کی پابند تھیں... ان پر سفر کرنا ایک شاندار تجربہ ہوتا تھا‘ بسوں اور ویگنوں پر کون سفر کرتا تھا... اور یہ ریلوے ملکی خزانے کو منافع سے لبریز کرتی جاتی تھی‘ پھر بتدریج یہ زوال پذیر ہوتی گئی ... واپڈا کا محکمہ جب قائم ہوا تو اسے بین الاقوامی معیار کے مطابق ترتیب دیا گیا یہاں تک کہ ایڈورڈ سٹون ایسے نابغہ ماہر تعمیر نے چیئرنگ کراس کے ایک کونے میں ایک ایسی عمارت تعمیر کی جواب بھی دنیا کی بہترین عمارتوں میں شمار کی جاتی ہے اور ان دنوں اسکے برآمدے تاریک ہو چکے ہیں‘ لوڈشیڈنگ کا عفریت اس پر راج کرتا ہے‘ پاکستان سٹیل مل‘ ایشیا کی بڑی ملوں میں شمار ہوتی تھی‘ پھر آپ جانتے ہیں کہ مقامی سیاست نے اس مل کو کیسے ناکارہ کر دیا... ایک کاروباری خاندان جسکے پاس دنیا بھر کی سٹیل پروڈکشن کی اجارہ داری ہے‘ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہالینڈ میں جتنی بھی سٹیل انڈسٹری ہے وہ اسی خاندان کی ملکیت ہے جو ان دنوں ایک ایسے محل میں مقیم ہے جو کبھی ملکہ الزبتھ کا محل ہوا کرتاتھا... وہ برطانوی شہریت رکھتے ہیں ، کسی وقت انہوں نے پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا کہ آپ ہم سے معاہدہ کرلیں ہم پاکستان سٹیل مل کو سنبھالتے ہیں اور اسے ایک منافع بخش انڈسٹری بنا سکتے ہیں شنید ہے کہ ان کی پیشکش صرف اس لئے قبول نہ کی گئی کہ پھر ہماری سٹیل کے کاروبار ٹھپ ہو جاتے...کیا یہ ایک معجزہ نہیں ہے کہ پاکستان سٹیل مل تو خسارے میں جارہی ہے جبکہ پرائیویٹ سٹیل ملیں منافع میں چلی ہی جاتی ہیں... ان پر اللہ کافضل ہوتا ہی چلا جاتا ہے... پاکستان ٹیلی ویژن‘ ایشیا بھر میں سب سے تخلیقی اور شاندار ادارہ‘ ہندوستان اسکی گرد کو بھی نہ پہنچتا تھا آج اس پر بھی گرد جم چکی ہے ‘میں ہر ماہ پنے بجلی کے بل میں شامل ٹیلی ویژن کی فیس کی رقم دیکھ کر ماتم کرتا ہوں کہ میں اسے دیکھتا نہیں‘ تو یہ جرمانہ کیوں مجھ پر نافذ کر دیا گیاہے‘ ویسے اگر نافذ نہ کیا جائے تو درجنوں افسران بالا کی لاکھوں کی تنخواہیں کیسے ادا کی جائیں.. اور باقی رہ گئی پی آئی اے کی بیوہ ہو چکی شہزادی... نجی ائےرلائنز منافع میں جا رہی ہےں اور پی آئی اے خسارے میں جارہی ہے‘ میں کیا بیان کروں کہ یہ شہزادی ایک زمانے میں دنیا بھر کو اپنے حسن انتظام‘ حسن سلوک اور حسن جدید سے مسخر کئے ہوئے تھی .. ائر مارشل نور خان نے کیسے اسے آسمانوں پر پہنچا دیا‘کراچی کا مڈوے ہاﺅس اور وہاں دنیا بھرکے طیارے اترتے تھے اور انکا عملہ مڈوے ہاﺅس میں قیام کرتا ‘اقرار کرتا تھا کہ نہ یورپ اور نہ امریکہ میں‘ کہیں بھی ایسی خوش اخلاقی اور خوش اسلوب قیام گاہ نہیں ہے...پی آئی اے نے پاکستان میں برائلر مرغیوں کے مرغی خانے قائم کئے... دنیا کی بڑی بڑی ائر لائن‘ پی آئی اے کے قائم کردہ جدید کچن پر اپنے کھانوں کا انحصار کرتی تھیں‘ ائر لائن تاریخ میں یہ پی آئی اے تھی جس نے ان زمانوں کے سب سے مشہور پیرس کے فیشن گورو پیئر کارڈین سے اپنی فضائی میزبانوں کیلئے وردیاں ڈیزائن کروائیں جبکہ دیگر ائرلائنوں کی فضائی میزبانیںعام سی پوشاکوں میں ہوا کرتی تھیں دنیا کے کسی بھی ائرپورٹ پر جب ہماری ائرہوسٹس اترتی تھیں تو انکے جدید پیراہن اور انکے ذاتی حسن کو لوگ ذرا ٹھہر کے دیکھتے تھے‘ نظر بھر کر دیکھتے تھے‘ اور پی آئی اے کے دفاتر پیرس کی شانزے لیزے شاہراہ پر نظر نواز ہوتے تھے نیو یارک کا روز ویلٹ ہوٹل اسکی ذاتی ملکیت تھا‘ اب بھی ہے پر کب تک۔