سینیٹ کی تکمیل‘ مگر داغ مزید گہرے۔۔۔

 سینٹ کے حالیہ الیکشن، اور پھر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں، پارلیمان یا جمہوریت کےلئے کوئی قابل فخر روایت قائم نہ ہو سکی‘ پی ڈی ایم کی طرف سے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد کی نشست پر امیدوار نامزد کرنے سے ہی سینیٹ الیکشن میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور سابق صدر آصف زرداری نے اپنی سیاسی گیم کھیل کر یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر منتخب تو کروا لیا لیکن اسی ایوان سے، مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والی، پی ڈی ایم کی خاتون امیدوار کو اتنے ووٹ نہ مل سکے۔ اس کے باوجود یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن کی طرف سے مشترکہ امیدوار برائے چیئرمین سینیٹ نامزد کرانے میں مشکل پیش نہیں آئی، مگر سینٹ سے ان کو جیتوایا نہ جا سکا کیونکہ گیلانی کو پڑنے والے سات ووٹ مسترد قرار دے کر سابق چیئرمین صادق سنجرانی کو منتخب قرار دیا گیا۔ اب حکومتی امیدوار تو جیت گیا، لیکن اپوزیشن امیدوار کو بھی اپنی ہار مشکوک بنانے کا جواز مل گیا۔ اگرچہ اپوزیشن نے یوسف رضا گیلانی کی شکست چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن پارلیمنٹ کے اندر ہونے والی کوئی کاروائی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی، اس لئے بادل ناخواستہ یہ قبول کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن میں، پی ڈی ایم کے امیدوار مولانا غفور حیدری کو اپوزیشن کے متوقع ووٹوں سے سات ووٹ کم ملے ہیں، جس نے یہ بات کھول دی ہے کہ گیلانی کے جو ووٹ مسترد ہوئے، وہ غلطی سے نہیں، بلکہ جان بوجھ کر خراب کیے گئے۔ اس صورتحال میں کم ازکم سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کا تو اپوزیشن سوچے گی بھی نہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو 2000 کے بعد سینیٹ میں ن لیگ کے ساتھ ہاتھ ہوتا رہا ہے جبکہ پیپلزپارٹی زیادہ بار اپنا چیئرمین لاتی رہی، فاروق ایچ نائیک، سید نیئر بخاری اور رضا ربانی مسلسل چیئرمین رہے جب کہ صادق سنجرانی اور سلیم مانڈوی والا بھی پیپلزپارٹی کے نامزد کردہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین تھے تحریک انصاف کا بھی المیہ یہ ہے کہ اس بار اکثریتی پارٹی تو بن گئی، لیکن چیئرمین بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والا، جبکہ ڈپٹی چیئرمین فاٹا سے تعلق رکھنے والا آزاد سینٹر ہے۔ یہ فاٹا کے آخری چار سینیٹرز میں سے ایک ہیں اور اس لحاظ سے پہلے اور آخری سینیٹر بھی بن گئے، جو ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا تعلق چھوٹے صوبوں اور پسماندہ علاقوں سے ہے۔ جہاں تک اپوزیشن کی سیاست کا تعلق ہے تو ایوان بالا کے حالیہ انتخابات میں پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتوں کے درمیان غلط فہمیاں مزید گہری ہوئی ہیں۔ یہ بات اب کھل چکی ہے کہ اگر آصف زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنانے کےلئے پی ٹی آئی کے ووٹ توڑے تھے، تو اب یہ بھی سننے میں آرہاہے کہ ن لیگ کے تین ارکان قومی اسمبلی نے گیلانی کو ووٹ نہیں دئیے تھے اب گیلانی کےلئے ووٹ ضائع کرنے والے اور مولانا غفور حیدری کو ووٹ نہ دینے والے بھی وہی لوگ ہوسکتے ہیں‘ یہ کھلے راز اپوزیشن میں موجود دراڑوں کو واضح کرتے ہیں‘ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پیپلز پارٹی کا چیئرمین اور جے یو آئی کا ڈپٹی چیئرمین تو ہار گیا، یہ دونوں جماعتیں متحد ہوکر ن لیگ سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی چھین سکتی ہیں اس سے بڑھ کر پی ڈی ایم کی تحریک کے اگلے مراحل بھی کمزور پڑ جائیں گے۔ لانگ مارچ اور دھرنے سے پیپلز پارٹی پہلے بھی متفق نہیں تھی، نئی صورتحال میں جے یو آئی بھی دوبارہ ضرور سوچے گی۔ پی ڈی ایم کے آئندہ اجلاس میں مسلم لیگ نون پر سوالات اٹھیں گے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اب پنجاب یا مرکز میں عدم اعتماد کا خطرہ ٹل گیا ہے، لیکن باہمی بے اعتمادی کے باعث، مسلم لیگ نون کے احتجاج کا زور بھی ٹوٹ گیا ہے۔ اب اپوزیشن اور حکومت کو مل کر آئین سازی پر توجہ دینی چاہئے تاکہ مستقبل میں انتخابی عمل کو قبل اعتماد بنا کر جمہوریت کو پروان چڑھایا جا سکے۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ نہ صرف جمہوری اداروں کا تسلسل قائم رہے بلکہ یہاں پر موجود افراد بھی اس کو مضبوط بنانے میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور اس ضمن میں حزب اختلاف اور حکمران جماعت دونوں مل کر آئین سازی پر توجہ مرکوز کریں۔