اسلام آباد کا موسم محبوب کے مزاج کی طرح ہے، کوئی پتہ نہیں کب موڈ بدل جائے۔ چند دن پہلے دن کا درجہ حرارت 30 درجہ تک پہنچ گیا تھا، گرم کپڑے اتارنے اور گاڑیوں میں اے سی چلانے کی نوبت آ گئی تھی، پھر موسم نے کروٹ بدلی، گرج چمک کےساتھ بارش اور اولے برسنے لگے اور ایک بار پھر سردی واپس لوٹ آئی۔ اب بہار کا جوبن زمین کو نئے نئے رنگ دینے لگا ہے، کسی زمانے میں پشاور بھی پھولوں کا شہر ہوتا تھا، مگر اب بھی اگر چہ کسی حد تک اسے دوبارہ پھولوں کا شہر بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں تاہم زیادہ پھول ختم ہوگئے ہیں، البتہ وفاقی دارالحکومت میں بہار اپنے نکھار پر ہے، ہری بھری گرین بیلٹس، انواع و اقسام کے درخت اور دیدہ زیب پھولوں کے رنگ ہی اس بہار کا حسن ہوتے ہیں، لیکن اسلام آباد کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے، شہر اور دارالحکومت کو جلد سے جلد بڑھنے والے پودوں سے سر سبز کرنے کی لالچ میں، دنیا بھر سے ایسے درخت اور پودے منگوائے، جو دیکھنے میں تو خوشنما ہیں، مگر ان کی آب و ہوا اور پولن انسانی صحت کےلئے مضر ثابت ہوئی ہے۔ بالخصوص جنگلی شہتوت نے تو پولن الرجی کو عذاب جان بنا کر رکھ دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا بیج انڈونیشیا سے لایا گیا تھا، جو جہاز کے ذریعے موجودہ دارالحکومت کے تمام پہاڑوں اور میدانوں میں پھینکا گیا، یہ بڑے بڑے اور کھردرے پتوں والا درخت تیزی سے بڑھتا ہے اور اس کی جڑیں پھیل کر مزید درختوں کی شکل میں اُگنے لگتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ کچھ سالوں میں اس جنگلی شہتوت نے پورے اسلام آباد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اب، جب اس کی کونپلیں پھوٹتی اور پتے نکلتے ہیں تو اس سے خارج ہونے والی پولن سے حساس فطرت کے لوگ سخت تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں، زیادہ تر سانس رکنے کی علامت سامنے آتی ہے، جبکہ ناک میں سوزش اور جسم پر خارش بھی ہو سکتی ہے۔ یہ تو پولن الرجی کی بڑی وجہ ہے، اس کے علاوہ پھولوں کی بھی کئی اقسام کی پولن صحت کےلئے نقصان دہ ہے، لیکن رنگ و نکہت کےلئے ان کو اُگایا جاتا ہے، اگر بہار کے یہ دو ماہ اسلام آباد کو سبزے اور رنگ و بو سے”شہر بے مثال“ بنا دیتے ہیں، تو ساتھ ہی سینکڑوں شہریوں کےلئے یہ عرصہ قیامت بن جاتا ہے۔ ہمارے خطے میں چیڑ، صنوبر، پھلائی، نیم، کیکر اور شیشم وغیرہ کے درخت موجود ہیں، جو انسان دوست مزاج رکھتے ہیں، ان کے پتوں اور پھولوں سے نکلنے والی پولن بہت سی بیماریوں کےلئے شفا کا درجہ رکھتی ہے، لیکن ان کی بجائے ایسے نئے پودے اور درخت لگائے گئے، جو انسانی مزاج اور صحت کےلئے ضرر رساں ہیں، اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ کتے کے ساتھ ملتی جلتی شکل دیکھ کر بھیڑیا گھر میں رکھ لیا جائے، حالانکہ کتا انسان دوست جانور ہے جبکہ بھیڑیا انسان دشمن اور جنگلی جانور ہے۔ یہ تو خیر موسم اور بہار کی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ مضرات کے حوالے سے بات ہے، دیکھا جائے تو ہمارے ہاں سیاست اور جمہوریت بھی عوام کےلئے حقوق کی ضمانت ہونے کے بجائے حق تلفی کی علامت بن چکی ہے، گزشتہ اڑھائی سال سے حکومت اور اپوزیشن نے جس قسم کی سیاست کو اپنایا اور فروغ دیا ہے، اس سے ایک طرف قوم مہنگائی اور بے روزگاری کے دوہرے عذاب میں مبتلا ہے تو دوسری طرف ان کو منفی سیاست نے ہیجان اور نفسیاتی امراض میں مبتلا کر دیا ہے۔ عام انتخابات میں دھاندلی تو معمول کی بات ہے، کوئی بھی الیکشن ان الزامات سے پاک نہیں، مگر اس ماہ کی 3 تاریخ کو قومی و صوبائی اسمبلیوں میں سینیٹ انتخابات اور 12 مارچ کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں جو رویہ دکھایا گیا، یہ ایک نئی مثال ہے، اگرچہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے تحفظات کی روایت بہت پرانی ہے، لیکن اس بار ایوان کے اندر بھی بہت کچھ ایسا ہوا جس سے جمہوریت اور پارلیمنٹ کی عزت و توقیر پر حرف آیا ہے۔ اب بھی اپوزیشن چیئرمین سینیٹ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے، حالانکہ سیاست میں ہار جیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور سینٹ کے چیئرمین کی میعاد ہی صرف تین سال ہوتی ہے، اگر اپوزیشن سیاست میں ہے تو پھر یہ تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا کےلئے جمہوریت میں فائدے ہی فائدے ہیں، عوامی نمائندے ذاتی مفاد کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، پارلیمنٹ میں عوام کے مسائل پر ہی بات ہوتی ہے۔