ہوتا یہ ہے کہ جو بھی چیز آپ کو بغیر محنت کے مل جاتی ہے اُس کی قدر آپ کے دل میں نہ ہونے کے بر ابر ہوتی ہے۔ چاہے وہ کتنی بھی قیمتی کیوں نہ ہو ۔ حکومتیں عوام کی بہتری کےلئے کچھ نہ کچھ اقدامات اٹھا تی رہتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا صوبہ ایک غریب صوبہ ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اس صوبے کے رہاشیوںکےلئے آمدن کے ذرائع کم ہیں۔ یہاںاس قدر انڈسٹری نہیں ہے کہ جو یہاں کے ہنر مندوں کو کھپا سکے اور یہاں سارے مکینوں کو نوکریاں مل سکیں اور وہ اپنے روزی روٹی کا انتظام کر سکیں۔صوبے کا زیادہ علاقہ پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے کہ جہاں کسی بھی انڈسٹری کا لگنا اور اس کےلئے خام مال کا انتظام ایک مشکل کام ہے ۔ اس لئے تو ہمارے ہاں زیادہ تر اضلاع کے لوگ یا تو بیرون ملک روزگار کے متلاشی رہتے ہیں یا پھر اس صوبے کے لوگ عموماً اپنے بچوں کی روزی روٹی کےلئے لاہو ر اور کراچی کارخ کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی بڑے شہر میں چلے جائیں آپ کو اس صوبے کے ہنر مند جگہ جگہ کام کرتے دکھائی دیں گے ۔کارخانے کسی بھی ملک کے باسیوں کےلئے روزی کا انتظام کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں اور ہمارے صوبے میں کہیں بھی کارخانوں کا و ہ سلسلہ قائم نہیں ہو سکا کہ جو اس کے رہاشیوں کےلئے اپنے سینے واکرتے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پر کارخانوں کےلئے خام مال کی فراہمی بھی ایک مسئلہ ہے۔ اور ایک بات اور بھی کہ یہاں پر کوئی ایسا بندوبست بھی نہیں ہے کہ لوگوں کو ٹریننگ مل سکے کہ وہ کار خانوں میں اپنی روزی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں یعنی فنی تعلیم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہنرمندافراد میں اضافہ ہو ایک عرصے تک ہمیں اعلیٰ تعلیم کےلئے پنجاب یونیورسٹی سے رجوع کرنا پڑتا تھا ۔ صوبے میں صرف ایک بڑا کالج تھا اور وہ اسلامیہ کالج پشاور تھا۔ بہت بعد میں اس صوبے میں دیگر کالج اوریونیورسٹیاں وجود میں آئیں۔ اب تو ما شا اللہ صوبے میں کئی پوسٹ گریجوئٹ کالجز اور یونی ورسٹیا ںہیں جو طلباءکی تعلیمی پیاس بجھانے کے لئے کام کر رہی ہیں مگر اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر چہ یہاں کی یورنیورسٹیوں کا تعلیمی معیار بھی پورے ملک کی یونیورسٹیوںسے بہتر ہے مگر آبادی کی مناسبت سے اب بھی تعلیمی اداروں کی کمی ہے ۔ ایک کام جو ہماری صوبائی حکومت نے کیا ہے وہ طلباءکےلئے مفت کتابوں کی فراہمی ہے۔ یہ صوبے کی عوام کی مالی حالت کو دیکھتے ہوئے ایک بہت ہی بہتر منصوبہ تھا مگر اس میں ایک چیز کونظر انداز کیا گیا کہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی چیزکی حفاظت کرتا ہے اور اپنی چیز وہی ہوتی ہے جو آپ اپنی محنت سے حاصل کرتے ہیں۔ جو چیز آپ کو بغیر محنت کے ملتی ہے اس کی کبھی بھی قدر نہیں کی جاتی۔اسی لئے ہمارے ہاں جو مفت کتابوں کا سلسلہ شروع کیا گیا اُس نے ہمارے طلباءمیں کتاب کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے۔ اب کتابوں کا یہ حال ہے کہ جو بچوں تک پہنچتی ہیں اُن کی بھی قدر نہیں ہے اور آدھی پڑھائی کے بعد ہی ان کی جو حالت ہوتی ہے وہ اپنی خریدی ہوئی کتابوں کا دو سال بعد بھی نہ ہوتا۔