اصل صورتحال۔۔۔

 پی ڈی ایم میں اختلافات اور ناکامیسے حکومت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے کمزور پڑنے کا خدشہ ہے ، جہاں تک جمہوری نظا م میں حکومت اور حز ب اختلاف کی بات ہے تو جس طرح کہا جاتا ہے کہ میاں بیوی گھر چلانے والی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں، دونوں کی صلاحیتوں اور توازن سے خاندان چلتا ہے، اسی طرح ملک کو چلانے کےلئے حکومت اور اپوزیشن، دونوں کا وجود اور کردار اہم ہوتا ہے، حقیقی جمہوریت میں اپوزیشن حکومت کو راہ راست پر رکھنے اور ملکی مفاد کے خلاف فیصلوں کی روک تھام کا کردار ادا کرتی ہے، ہمارے ہاں اپوزیشن کا فرض یہ سمجھ لیا گیاہے کہ وہ حکومت کی راہ میں رکاوٹ ڈالے اور قبل از وقت ختم کرنے کے حالات پیدا کرے، حالانکہ یہ بالکل غلط اور غیر جمہوری سوچ ہے۔ پی ڈی ایم کا پہلے دن ہی ایجنڈا یہی تھا کہ وہ حکومت کو گرائے گی اور اسی وجہ سے چند ماہ میں ہی ناکام ہوگی، اگر متحدہ اپوزیشن اپنے اتحاد کا مقصد اور ایجنڈا، حکومت کو مہنگائی کنٹرول کرنے پر مجبور کرنا، آئینی اصلاحات کے ذریعے ملک کی حالت درست کرنا اور الیکشن کمیشن یا نیب جیسے قومی اداروں کی اصلاح کرنا ہوتا تو اس سے ملک‘ جمہوریت اور خود اپوزیشن کو فائدہ ہوتا۔ جب گزشتہ سال پی ڈی ایم قائم ہوئی تو حکومت گرانے کےلئے طے کردہ لائحہ عمل میں بھی اسمبلیوں سے استعفے دینے کی تجویز شامل تھی، جبکہ پیپلز پارٹی پہلے دن سے ہی استعفوں کے آپشن کو ”آخری آپشن“ رکھنے کی حامی تھی، بلکہ پی ڈی ایم کے ابتدائی اجلاسوں میں بھی پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے مطالبہ کیا تھا کہ میاں نواز شریف واپس آئیں تو ان کو استعفیٰ پیش کریں گے۔ اور اب آصف زرداری نے کھل کر کہہ دیا کہ نواز شریف واپس آئیں، ہم سب گرفتار ہوں گے اور استعفے بھی دیں گے۔ مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ پاکستان میں میاں نواز شریف کی جان کو خطرہ ہے، اس لیے وہ لندن میں بیٹھ کر ہی پارٹی کی قیادت کریں گے اور جے یو آئی کا موقف ہے کہ جب تک اسمبلیوں سے استعفے نہیں دیئے جاتے، لانگ مارچ یا دھرنے کا کوئی فائدہ نہیں، مولانافضل الرحمن تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے غیر جمہوری رویہ سے تحریک میں رکاوٹ آئی ہے، جبکہ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی نے ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لے کر جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، یہ آصف علی زرداری کی تجاویز پر ہی ممکن ہوا ہے، اگرچہ اس سیاسی عمل سے پیپلزپارٹی نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے، لیکن بہرحال حکمت عملی کا فائدہ سب کو ہوا۔ اب بھی اگر استعفے دینے کا فیصلہ قبول کر لیا جائے تو حکومت سے زیادہ اپوزیشن کو نقصان ہوگا، بہرحال پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو اپنے پیچھے لگا کر دوہرا فائدہ اٹھایا ہے اور اب سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ لینے کا بھی مطالبہ کر رہی ہے، حالانکہ فیصلہ ہوا تھا کہ سینٹ میں چیئرمین کے عہدے کا امیدوار پیپلز پارٹی اور ڈپٹی چیئرمین کےلئے جمعیت علماءاسلام سے تعلق رکھنے والا ہوگا، جبکہ اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ ن کا ہوگا۔ جس کےلئے ن لیگ نے نامزدگی بھی کر لی تھی، مگر غیر متوقع طور پر چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا الیکشن اپوزیشن ہارگئی، اور اب پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ وہ سینیٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے، اس کے پاس یوسف رضا گیلانی اور رضا ربانی جیسے سینئر سیاست دان موجود ہیں، اس لیے سینٹ میں اپوزیشن لیڈر اس کا حق ہے، اب ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات کی یہ کھائی اتنی گہری ہے، کہ پھلانگنا مشکل ہے، ویسے بھی دونوں پارٹیوں کو پہلے بھی ایک دوسرے پر تحفظات ہیں، مسلم لیگ سمجھتی ہے کہ پیپلزپارٹی نے سینیٹ انتخابات میں قومی اسمبلی سے اپنے امیدوار یوسف رضا گیلانی کےلئے تو ووٹ لے لیے، مگر ن لیگ کی خاتون امیدوار کو ووٹ نہیں دلوائے، جبکہ پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ یہ نون لیگ کے سینیٹر ہی تھے، جنہوں نے چیئرمین کے الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کے ووٹ ضائع کیے ، اس طرح اب پی ڈی ایم کی بڑی پارٹیوں کے درمیان غلط فہمیاں پختہ ہو چکی ہیں، اس میں تو نہ حکومت کا کوئی ہاتھ ہے، نہ کسی اورکا بلکہ یہ مختلف الخیال جماعتوں کے اکھٹے ہونے کا نتیجہ ہے۔