اور اب تو ہم ایک ایسے زمانے میں جی رہے ہیں جہاں سانس لینے میں تو شاید کوئی وقت لگ جائے مگر تازہ یا فوری خبر وں کی بوچھاڑ میں کوئی وقفہ نہیں ہو تا مسلسل اور لگا تار خبریں ہماری سماعتوں میں انڈیلی جارہی ہوتی ہیں، ایک زمانہ تھا جب نیا نیا ٹی وی ہماری زندگیوں میں داخل ہوا تھا،اس وقت ہم ٹرانسمیشن کے آغاز میں نشر ہونے والے پروگرام بصیرت سے لے کر فرمان الہٰی بلکہ اس کے بعد قومی ترانے تک کے سارے پروگرام انتہائی توجہ اور دلچسپی سے دیکھتے تھے، اس دوران مختلف پروگرام ہوتے تھے یعنی ڈرامے بھی ہوتے،فیچرز بھی،دستاویزی فلمیں بھی،موسیقی بھی اور خبریں بھی ہوتیں مگر مجال ہے جو ہم ایک لمحہ بھی آنکھیں جھپکتے حالانکہ اب خبروں میں انگریزی اردو اور علاقائی خبروں کے ساتھ ساتھ بنگالی اور بعد میں عربی خبریں بھی ہوتیں مگر نہ سمجھنے کے باوجود ہماری دلچسپی میں ذرا برابر کمی واقع نہ ہو تی، تب ٹی وی نشریات سر شام شروع ہو کر رات کے پہلے پہر ختم ہو جایا کرتی تھیں بلکہ ایک دن ہفتہ وار چھٹی بھی ہوتی تھی۔ اب یہ نشریات بھی چوبیس گھنٹے مسلسل ہوتی ہیں بلکہ چھوٹی سکرین پر چینلز کا اتوار بازار لگا ہوا ہے اور ان نیوز چینلز کا سارا کاروبار،فوری خبر یا بریکنگ نیوز پر ہی استوار ہے۔ یہ فوری خبریں کچھ اس طرح اب ہمارا مزاج بن گئی ہیں کہ جونہی کسی چینل پر نیوز الرٹ کا سگنیچر ٹیون سنتے ہیں سارے کام کاج چھوڑ کر چھوٹی سکرین پر نظریں جما دیتے ہیں، اب یہ خبر بھلے سے ہمارے مزاج کی ہو کہ نہ ہو ہم سن اور دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ”فلاں صاحب یا صاحبہ جلسہ جلوس میں شرکت کے لئے گھر سے نکل پڑے ہیں،“ پکوڑے بیچنے والے کو پچاس ہزار روپے کابجلی بل بھیج دیا گیا،“ فلاں فنکارہ کی سرخ جوڑے میں تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں“ اب رفتہ رفتہ ہم بھی ایسے ہی ہو گئے کہ ہر خبر میں دلچسپی لینا عادت بن گئی،ایک تواتر سے جب بھی کوئی کام ہونے لگتا وہ ایک طرح کی عادت ہی تو بن جایا کرتا ہے، ایک زمانے میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم میں بہت عمدہ کھلاڑی تھے اور ان کی کارکردگی بہت بہتر تھی اور وہ ہر میچ جیت رہے تھے، یہ رانا ٹنگا کی کپتانی کا زمانہ تھا، وہ گراؤنڈ میں ہمارے کرکٹ ہیرو یونس خان کی طرح بہت ریلیکسڈ رہتے تھے، ایک میچ کے بعد گراؤنڈ ہی میں ان سے بات چیت کرتے ہوئے ٹی وی رپورٹر نے جب پوچھا کہ آ ج کا اتنا مشکل میچ جیت کر کیسا لگا،تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، ”جی اب تو جیتنے کی عادت سی ہو گئی ہے“ بس ہمیں بھی بریکنگ نیوز دیکھنے سننے کی عادت سی ہو گئی ہے ذرا کانوں میں سگنیچر ٹیون پڑی اور ہم الرٹ ہو گئے، ہم خود کو روک ہی نہیں سکتے، بہت دل کرتا ہے کہ ان خبروں کے جواب میں ہم بھی اسی طرح کارویّہ اپنائیں جو دلیپ کمار نے فلم داغ کے شنکر کے کردار میں اپنایا تھا، ایسی ہی ایک بریکنگ نیوز لے کر جب ماضی کی فنکارہ نمی بھاگتی ہوئی شنکر کے گھر آتی ہے، جومورتی بنا رہا ہوتاہے،نمی خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے اور چیخ کر اسے بتاتی ہے کہ شنکر ہماری گائے نے بچہ دیا ہے“ شنکر(دلیپ کمار) بدستور مورتی بناتے ہوئے اور اس کی طرف دیکھے بغیر اسے کٹھور انداز میں کہتا ہے۔ ”ہاں تو میں کیا کروں“اس وقت نمی کی حالت دیدنی ہو تی ہے، بس ایسا رویہ میں بھی اختیار کرنا چاہتا ہوں اور کچھ نہیں تو بس ہر خبر کے جواب میں ”تو پھر“ کہنا چاہتا ہوں، جیسے اگر خبر نشر ہو کہ ”فنکارہ میرا نے کہا ہے کہ سرحد پار کے لوگ مجھے ایشوریہ رائے سے زیادہ خوبصورت قرار دیتے ہیں“ اب اس خبر کا اگر یہی جواب دیا جائے کہ اچھا ”تو پھر“ تو خبر میں کیا رہ جائے گا خیر ایسی بہت سی خبروں کے انبار میں کبھی کبھی ایک ایسی خبر بھی ملتی ہے جو دیر تک دل کو خورسند رکھتی ہے یہ خبر نشریات کے اداروں سے بھی مل سکتی ہے اور کسی اور ذریعے سے مل سکتی ہے جیسے ستر کی دہائی کے اوائل میں مجھے ایک خبر مرحوم دوست انجینئر شیر علی(عبدالودود) نے دی تھی، ان دنوں وہ مانسہرہ روڈ ایبٹ آباد کی ایک گلی میں رہتے تھے اور یہ خبر تب سے اب تک کتنی بار یہاں وہاں احباب سے شیئر کر چکا ہوں، ان کے پڑوس میں تاریخی ناولوں کے مشہور اور مقبول رائٹر نسیم حجازی رہتے تھے، اس گلی میں نسیم حجازی کے گھر کے سامنے ایک ورکشاپ کھل گئی، جس کی وجہ سے وہ خاموش اور پر سکون گلی میں دن بھر ایک ہنگامہ اور شور بپا رہنے لگا یہاں تک کی کہانی تو سیدھی سادھی ہے، اہل محلہ بھی چپ رہے مگر نسیم حجازی مرحوم نے ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا اورمقدمہ کی ایک مختصر سی وجہ یہ لکھی کہ میں ایک رائٹر ہوں،ناول نگار ہوں اور ورکشاپ کے شور کی وجہ سے میں نہ لکھ سکتا ہوں نہ ہی اپنے سبجیکٹ پر اپنی بھرپور توجہ مر کوز رکھ سکتا ہوں“ چلئے مقدمے تو یار لوگ ایسے ویسے دائر کرتے ہی رہتے ہیں شیر علی کہنے لگے مگر عدالت نے نہ صرف شنوائی کی بلکہ فوری ایکشن لیتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر اندر ورکشاپ ہماری گلی سے ہٹوا دی“ یقینا گلی کے لوگوں کو بھی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ قلم کی طاقت کیا ہے فراز نے کہا ہے نا،
اسے ہے سطوت شمشیر پہ گھمنڈ بہت
اسے شکو ہ ِ قلم کا نہیں ہے اندازہ
باہر کی دنیا میں تو خیر ذرا ذرا سی بات پو لوگ کورٹس چلے جاتے ہیں بلکہ ان باتوں کے تو چٹکلے اور لطیفے بنے ہوئے ہیں جیسے ایک صاحب نے ایک شخص کو محض اس لئے ”سْو“ کر دیا تھا کہ اس نے اس کے کتے کو ”میاؤں‘‘ کہہ دیا جس سے اس کے کتے کی انسلٹ ہو گئی ہے۔“ لیکن ہمارے ہاں یہ رواج نہیں ہے،اور اب اتنی دہائیوں کے بعد ایک اور دل خوش کن خبر نے سرشار کر دیا، یہ خبر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں شائع اور نشر ہوئی، اس خبر کے مطابق ایک لیکچرار دلہن نے شادی کے موقع پر اپنے لیکچرار دولہا سے حق مہر میں ایک لاکھ روپے کی کتابوں کا مطالبہ کر دیا، جو ادب کے استاد دولہا نے ہنسی خوشی تسلیم کرتے ہوئے ایک لاکھ کتب کی لائبریری حق مہر میں دے دی، چند برس پہلے برطانیہ کے قومی کتب خانے ”برٹش لائبریری“ نے اپنے صدر دروازے پر نوٹس لگایا تھا جس میں لوگوں سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ اپنے جن عزیزوں اور پیاروں کے جنازوں اور مقابر پر جاتے ہوئے پھولوں کے گلدستے لے کر جاتے ہیں جن کی زندگی محض ایک دن ہو تی ہے، اس کی بجائے لائبریری کی جن کتابوں کو نئی جلد بندیوں کی ضرورت ہے وہ ان کے نام سے ایک کتاب کا خرچہ اٹھائیں اور اس پر اس عزیز کا نام لکھوا کر اسے امر کر دیں۔ شیخ ابراہیم ذوق نے کہا ہے۔
نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا
پل بنا، چاہ بنا مسجد و تالاب بنا