سیاست میں اتحاد بنانے میں اگر کسی شخصیت نے فعال سیاسی کردار ادا کیا ہے تو وہ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم تھے، اگرچہ ان کو 2000 میں نواز شریف کے جنرل پرویز مشرف سے ڈیل کرکے سعودیہ جانے سے مایوسی ہوئی تھی، نوابزادہ صاحب کی وفات کے بعد اس لحاظ سے ملک میں کسی بزرگ سیاسی شخصیت کی کمی محسوس ہونے لگی جو مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکے مفتی محمود مرحوم کے جانشین مولانا فضل الرحمن نے اس خلاءکو پر کرنے کی بھرپور کوشش کیلیکن اپوزیشن میں رہ کر ان کو ساتھ چلانا ان کےلئے اس وقت بظاہر مشکل ہو گیا ہے، مولانا اپوزیشن اتحاد ،پی ڈی ایم کے صدر تو بن گئے، لیکن دونوں بڑی پارٹیوں کی قیادت اپنے اپنے مفادات کےلئے اپنے فیصلے مسلط کرنا چاہتی ہے‘ پی ڈی ایم کو درپیش مشکلات میں یہ بات شدت سے محسوس ہونے لگی ہے کہ ملک میں جذباتی سیاستدانوں کو اعتدال میں رکھنے اور ملکی مفاد میں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے والی کوئی شخصیت ہونی چاہئے۔ غیر جانبدار ہو کر دیکھا جائے تو چوہدری شجاعت حسین یہ کردار بخوبی ادا کرسکتے ہیں جو متفرق جماعتوںکو ساتھ چلانے اور ملکی مفاد میں فیصلوں پر قائل کر سکیں ‘ چوہدری شجاعت حسین ابھی نوجوان تھے جب ملک پر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آئی چونکہ چوہدری شجاعت کے والد چوہدری ظہور الہی، دائیں بازو کی سیاست کے سرخیل تھے اور سوشلزم کی سیاست کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو ان کو برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے اور پھر 1970 سے لے کر 1977 تک چوہدری ظہور الہی حکومت کے انتقام کا ہدف بنے رہے ‘ان حالات میں چوہدری شجاعت حسین نے سیاست اور استقامت کی تربیت حاصل کی۔ چوہدری ظہور الٰہی کے قتل کے بعد بھی چودھری شجاعت حسین نے اپنی عملی زندگی اور سیاست میں کبھی کسی سے کوئی بغض یا عناد نہیں رکھا‘ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کو جب بھی حکومتی اقتدار میں موقع ملا تو اپنے ساتھیوں کو فراموش نہیں کیا، اس وقت بھی پاکستان مسلم لیگ، حکومت کی اتحادی ہے، اس شراکت کے تحت وفاق میں ایک اہم وزارت ملی تو اپنے بیٹے قومی اسمبلی میں ہونے کے باوجود، پارٹی کے ایک ساتھی کو وزیر بنوایا، اسی طرح حالیہ سینٹ کے الیکشن میں تحریک انصاف سے شراکت پر پنجاب سے ایک سیٹ پی ایم ایل کو ملی، یہاں بھی خود چوہدری شجاعت حسین نے سینیٹر بننے کے بجائے، دیرینہ ساتھی کا نام دیا، سینیٹ الیکشن سے یہ بھی یاد آیا کہ موجودہ اشتعال انگیز ماحول اور عدم برداشت اور عدم تعاون کی فضا میں، چودھری پرویز الہی نے پنجاب میں حکومت اور اپوزیشن کو قائل کرکے بلا مقابلہ سینیٹ الیکشن جیتکر دکھایا، حالانکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے درمیان پنجاب ہی میدان جنگ ہے، لیکن چودھری شجاعت حسین کی ہدایت اور رہنمائی سے چودھری پرویز الٰہی نے سیاسی انہونی کو ہونی کر دیا، اسی لئے سنجیدہ طبقے اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ چوہدری شجاعت حسین کو موقع دیا جائے تو اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جنگ کو ٹھنڈا کروا سکتے ہیں، اگرچہ میاں نواز شریف چوہدری برادران کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے، لیکن پنجاب میں سینیٹ انتخابات پر وہ چودھری پرویز الٰہی کی تجویز پر کامیابی حاصل کرچکے ہیں، اب اپوزیشن بھی سمجھ چکی ہے کہ صرف حکومت کو گرانے کی سیاست میں کامیابی نہیں ہو سکتی، اس کےلئے باعزت طریقے سے آئین سازی اور اصلاحات پر تعاون کی راہ کھل سکتی ہے، اگرچہ چوہدری شجاعت حسین ان دنوں کچھ علیل ہیں، لیکن وزیراعظم عمران خان اگر ان کو آگے کریں تو شاید اپوزیشن کو مثبت سیاست کی طرف لایا جا سکتا ہے۔اور مفاہمت کی سیاست سے ملک آگے بڑھ سکے۔