پاکستان اور بھارت اگرچہ دو ہمسایہ ملک ہیں، لیکن ان کی مثال دیگر ہمسائیوں کے ساتھ نہیں دی جا سکتی، ویسے تو چین، ایران اور افغانستان کے ساتھ بھی ہماری سرحدیں ملتی ہیں، ان کے ساتھ مختلف قسم کے تنازعات اور شکایات بھی چلتی رہتی ہیں، لیکن اس کے باوجود سفارتی اور تجارتی مراسم بھی قائم رہتے ہیں۔ بھارت کا معاملہ مختلف اس لئے ہے کہ پاکستان وسیع تر ہندوستان کی تقسیم سے ہی وجود میں آیا تھا، بدقسمتی سے بھارت کی سیاسی اشرافیہ، بالخصوص ہندو اکثریت نے دل سے پاکستان کو قبول ہی نہیں کیا، تقسیم ہندوستان کے فارمولے کے تحت جن ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا، ان میں جموں و کشمیر، حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ پر بھارت نے زبردستی قبضہ کر لیا، حیدرآباد دکن اور جوناگڑھ پاکستان سے دور ہونے کی وجہ سے آسان ہدف تھیں، لیکن کشمیر میں کشمیری مسلمانوں نے الحاق کےلئے بھارتی فوج سے مزاحمت کی اور کچھ حصہ آزاد کرالیا جبکہ باقی کی آزادی کےلئے ابھی تک جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس تحریک میں وقت کے ساتھ اتار چڑھاﺅبھی آتا رہا اور سیاسی و سفارتی کے ساتھ عسکری جدوجہد بھی اختیار کی جاتی رہی۔ اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت میں قراردادیں موجود ہیں، اس لیے پاکستان کی کسی بھی حکومت کےلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ کشمیر کو نظرانداز کر کے بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کو مضبوط کرسکے، بھارت نے صرف کشمیر میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سا لمیت اور وحدت کے خلاف بھی ہر طرح کی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے، یہ براہ راست جنگوں کے علاوہ خفیہ سازشوں کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کےلئے کوشاں رہتا ہے۔ اگر پاکستان کی طرف سے کوئی حکمران مسائل حل کرنا چاہتا ہے، تو بھارت کا رویہ مایوس کن حد تک جارحانہ ہوتا ہے، بھارت اپنے ہاں ہونے والی ہر دہشتگردی کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے، جبکہ پاکستان کے خلاف اپنے اقدامات کے ثبوت ہونے کے باوجود قبول نہیں کرتا۔ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی اور نہتے کشمیریوں پر گولہ باری ایک معمول ہے، اس سب کے باوجود کہیں نہ کہیں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات بھی چلتے رہتے ہیں اور مختلف ممالک ہمارے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لئے سرگرم رہتے ہیں، حال ہی میں ایسی ہی کسی کوشش کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل عمل کی تجدید کی گئی۔اس کے بعد ایک بار پھر امن کی اہمیت اور ضرورت کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ عسکری قیادت نے بھی جنگی تیاریوں کے باوجود امن کےلئے پیش رفت کی تائید کی ہے. اس ماہ کی 30 تاریخ کو دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات بھی طے ہو گئی ہے، جو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے دوران ہوگی لیکن ان سب باتوں کے ساتھ یہ بھی شامل ہے کہ بھارت نے کشمیر میں جو اقدام 5 اگست 2019 کو اٹھایا ہے، اور کشمیری مسلمانوں کی اکثریت ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ان کو واپس لینا ہوگا اور یہ بھارت کے آئین کے عین مطابق مطالبہ ہے۔ بھارت میں جب سے نریندر مودی برسراقتدار آیا ہے، ریاستی جارحیت میں اضافہ ہوا ہے. دنیا نے چھ سال تک آنکھیں بند رکھیں لیکن اب ساری دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اور غیر ہندو اقلیتوں کے خلاف ریاست کی پشت پناہی میں ظلم ہو رہا ہے حال ہی میں امریکہ نے بھی حکومتی سطح پر بھارت سے انسانی حقوق کا مسئلہ اٹھایا ہے، خود بھارت کے اندر کانگریس سمیت دیگر سیاسی جماعتیں سیکولر شناخت ختم کرنے اور ہندو ریاست بنانے پر حکومت کے خلاف ہیں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی حالیہ رپورٹ نے بھی بھارت کا غاصبانہ چہرہ بے نقاب کیا ہے ہمسایوں کے ساتھ جارحیت اور تسلط پر مبنی رویہ کے خلاف سری لنکا اور نیپال بھی سراپا احتجاج ہیں، جب کہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی میں بھارتی کردار بھی سامنے آ چکا ہے، اور وہ افغانستان کے امن کو سبوتاژ کرنے میں جو کچھ کر رہا ہے، وہ بھی دنیا جان چکی ہے پاکستان کے اندر سماج دشمن عناصر کی پشت پناہی کرکے پاکستان کی قومی وحدت کو نقصان پہنچانے اور ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو غیر ذمہ دار ملک ثابت کرنے کی کوششیں بھی خفیہ نہیں رہیں اگرچہ سب فراموش کرکے پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر آمادہ ہے اور اس پر ابھی تک سیاسی اور عسکری قیادت ہم خیال ہیں، تو بھارت کو اس پر سنجیدہ جواب دینا چاہیے بلکہ دنیا میں با اثر ممالک کو پاکستان کی امن کی طرف پیش قدمی اور بھارتی جارحیت کو دیکھتے ہوئے انصاف اور امن کا ساتھ دینا چاہیے اس وقت دنیا میں جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور پاکستان اور بھارت جیسی ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ کا سوچنا بھی گمراہ کن ہے اس لیے دنیا کو پاکستانی اقدامات کو پذیرائی بخشتے ہوئے بھارت کو مثبت اقدام پر مجبور کرنا چاہئے۔