اللہ سب کو صحت دے، لیکن وزیراعظم کی صحت زیادہ اہم ہے، بدقسمتی سے ہمارے سیاسی رویوں میں بتدریج جوتبدیلی آئی ہے ان میں سے ایک مخالفین کی بیماری کامذاق اُڑانا ہے اور اسے بہانہ قرار دینا ہے۔یہ ایک غیر سنجیدہ رویہ ہے جس سے احتراز کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے کہ کارکن بھی قائدین کے رویوں کو اپناتے ہیں اور ہر پارٹی قائد اپنے کارکنوں کیلئے ایک نمونہ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی بیماری پر اگر چہ اپوزیشن کی اکثر جماعتوں کے قائدین نے صحت یابی کی دعا کی ہے تاہم کہیں نہ کہیں سے دبے الفاظ میں یہ بھی کہا گیا کہ شاید الیکشن کمیشن میں پیشی سے بچنے کا بہانہ ہے، یہ دراصل ہماری بے حسی کا ایک پہلو ہے، صرف وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے ایسا نہیں کہا جا رہا بلکہ اس سے پہلے میاں نواز شریف کی بیماری کو بھی جیل سے نکلنے کا بہانہ کہا جاتا رہا جو غلط تھا اور اب بھی اگر کوئی اس طرح کے ریمارکس دیتا ہے تو غلط کرتا ہے۔میاں نواز شریف کے خلاف جب مقدمہ شروع ہوا تو یہ بھی خود ان کی اپنی حکومت تھی، طویل اور تہہ در تہہ تفتیش اور تحقیقات کے بعد میاں نواز شریف نااہل قرار دئیے گئے اور ان کو سزائے قید بھی ہوئی، جیل جانے کے بعد وہ کبھی ہسپتال اور کبھی جیل میں رہے، اس دوران بیماری سنگین سے سنگین تر ہوتی گئی اور مسلم لیگ ن نے خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان میں میاں نواز شریف کی پیچیدہ بیماری کا علاج ممکن ہی نہیں، اور ان کو جلد ہی لندن روانہ نہ کیا گیا تو جان کو خطرہ ہو سکتا ہے، وفاقی کابینہ نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کا نام ای سی ایل سے نکالا اور قطر سے آئی خصوصی ایئر ایمبولینس کے ذریعے لندن روانہ ہوئے، یہ حقیقت ہے کہ لندن روانگی کے وقت میاں نواز شریف صاحب کی صحت کے بار ے میں سرکاری ڈاکٹرز کی رائے بھی یہی تھی کہ ان کو باہر بھیجا جائے اب یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کی بیماری کتنی سنجیدہ ہے، لیکن کسی کو پھر بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کی بیماری کا مذاق اڑائے‘ یہ مکافات عمل ہی ہے کہ اس سے قبل سابق صدر پرویز مشرف کی بیماری کا مذاق اڑانے والے کی اپنی بیماری مذاق بن گئی مگر کوئی عبرت نہیں حاصل کرتا اور اب وزیراعظم اور ان کی اہلیہ میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے تو ان کا بھی مذاق اڑایا جا رہا ہے اور یہ صرف سوشل میڈیا پر غیر سنجیدہ کارکنوں کی طرف سے نہیں،بلکہ بعض بڑے سیاستدان بھی ایسا ہی کر رہے ہیں جہاں تک وزیراعظم کا تعلق ہے تو وہ روزانہ ورزش کرنے والے اور چاک و چوبند ہیں جس دن ان کا قومی ٹیسٹ مثبت آیا، اس سے ایک دن پہلے ہی مالاکنڈ میں ایک یونیورسٹی کے توسیعی منصوبے کا افتتاح کیا تھا پھر لاہور میں ملاقاتیں کرتے رہے، وزیراعظم آفس میں بھی کئی افراد سے ملاقاتیں ہوئیں اسی دن ان کو ویکسین بھی لگائی گئی اس لیے ٹیسٹ مثبت آنا کوئی ناممکن بات نہیں‘ جہاں تک ان کی الیکشن کمیشن میں پیشی کا تعلق ہے تو یہ شاید وکیل کی موجودگی سے بھی چل جائے۔ اس کیلئے بیماری کا بہانہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی‘ کورونا شہباز شریف کو بھی ہو چکا ہے اور وہ نیب کی تحویل میں ہونے کے باوجود عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ رہے‘ ہمیں اس مشکل وقت اور بے لگام وائرس کے خطرے میں دوسروں کا مذاق اڑانے کی بجائے، سب کی صحت کیلئے دعا کرنی چاہئے اور خود احتیاط کرنی چاہئے ہمارے اسی رویہ کی وجہ سے کنٹرول میں آنے کے بعد دوبارہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے ہمیں سنجیدگی اور خوف خدا کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے سیاسی قیادت کا رویہ عام عوام کیلئے مثال بن جاتا ہے، یہ قیادت کا فرض ہے کہ عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہیں یہ بلا ٹل گئی تو سیاست کیلئے بہت وقت مل جائے گا۔