وبا ء اور احتیاط  

 کچھ بیماریاں تو قابل علاج ہوتی ہیں اور جن کا علاج ممکن ہے اور ہو رہا ہے مگر کچھ بیماریاں وبا کی صورت ختیار کر لیتی ہے۔ اس سے قبل مختلف اوقات میں مختلف وبائیں اس خطے پر حملہ آور رہی ہیں اور ان وباؤں سے انسانی جانوں کا بہت زیادہ ضیاع بھی ہوا ہے۔ اور ان پر قابو بھی پایا گیا ہے مگر ہوتا یہ ہے کہ ایک وبا کا مقابلہ ہوتا ہے اور اس سے نجات حاصل کی جاتی ہے تو ایک اور وبا دنیاکو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جب بھی کوئی وبا ء دنیا پر حملہ آور ہوتی ہے تو اس کیلئے علاج کے ساتھ ساتھ احتیاط کابھی اہتمام کیا جاتاہے اور کہا جاتا ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے۔لیکن جب کوئی وباء حملہ آور ہو تو اس کا علاج ڈھونڈتے ڈھونڈتے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرتے کرتے بہت سے انسانی جانوں کا ضیاع ہو گیا ہوتا ہے۔ مگر انسان کو اللہ کریم نے یہ صلاحیت بھی دی ہوئی ہے کہ جب بھی کوئی مرض وبائی صورت اختیار کرتا ہے تو اُس کا علاج بھی ڈھونڈ لیتاہے۔ چاہے دیر سے سہی مگر علاج البتہ ضرور مل جاتا ہے۔ اور وہ وبا دنیا سے مٹ جاتی ہے۔چیچک، طاعون، ملیریا وغیرہ ایسی وبائیں اس دنیا پر حملہ آور ہوئیں مگر نسان نے ان کا علاج دریافت کر لیا اور ان کی احتیاطی تدابیر کا بھی طریقہ پا لیا اور یوں یہ وبائیں دنیا سے یوں مٹ گئیں کہ جیسے ان کا وجود اس دنیا میں تھا ہی نہیں۔ گو ان کے اثرات اب بھی نظر آتے ہیں۔ اب ایک وبا جس کا دنیاکو سامنا ہے وہ کورونا ہے۔ یہ ایک ایسی وبا ہے کہ جس نے آ ناً فا ناً اس دنیا کو لپیٹ میں لیا ہے اور اس کو علاج ڈھونڈ تے ڈھونڈتے بہت سے انسانی جانون کا ضیاع ہو چکا ہے اور اب بھی سینکڑوں کی تعداد میں اموات ہو رہی ہیں۔ احتیاط ہی اس کا بہترین علاج تصور کیاگیا ہے مگر آج کی مصروف ترین دنیا میں اس کی احتیاط پر عمل کرنا بھی مشکل ترین مرحلہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی احتیاط تو یہی ہے کہ لوگوں کے ہجوم سے پرہیز کیا جائے مگر ضروریات کا یہ حال ہے کہ ان کے حصول کیلئے لازماً ااپ کو جمگھٹوں میں جانا پڑتا ہے۔ بہت سی اشیاء کیلئے آپ کو بازار جانا ہوتا ہے۔ اب بازار میں ایس او پیز پر عمل درآمد کتنا مشکل ہے یہ سب کو نظر آ رہا ہے۔ اگر آپ بازار میں جاتے ہیں جو کہ آپ کو جانا لازم ہے تو ایسا ہی ایک دوسرے شخص کیلئے بھی ہے اور جب ہر ایک نے فرداً فرداً بازار جانا ہے تو بازار میں جمگھٹا ہونا بھی لازمی ہے اور یہی جمگھٹا آج کی متعدی بیماری کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی ضروریات کیلئے بازار تو جائے گا۔ اور اگر کسی شخص کو کورونا ہے چاہے وہ ظاہر نہ بھی ہوتو وہ دوسرے اشخاص کو متاثر کر سکتا ہے اور کر رہا ہے یو ں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے اور جب تک اس کا علاج مل جائے یہ بہت سی جانیں لے چکا ہو گا۔ حکومت نے اس سے بچنے کیلئے تعلیمی اداروں کو بند کیا اور کوشش کی کہ کسی بھی طرح کے جمگھٹے پیدا نہ ہوں مگر کب تک ایک دن تو سکول بھی کھولنے ہی ہوں گے اور بازاروں میں خریداریاں بھی کرنی ہوں گی اور اس کیلئے کوئی بھی کورونا کا مریض اس مرض کو دوسروں میں منتقل کرے گا اور یہ انتقال ایک سے دو اور دوسے چار کی صورت میں پھیلے گا اور پھیل رہا ہے۔ یو ں اس متعدی بیماری پر کنٹرول مشکل ترین کام ہو رہا ہے۔ یوں بھی ہے کہ ایک شخص کو یہ بیماری لاحق ہے مگر اس کا اس کو بھی اور اسکے ساتھیوں کو بھی ادراک نہیں ہے او ر یہ انجانے میں پوری سوسائٹی میں منتقل ہورہی ہے۔ اب اس کی کیا احتیاط ہو سکتی ہے۔ جب یہ معلوم ہو کہ ایک شخص مریض ہے تو اس سے تو آپ بچ سکتے ہیں مگر یہ ایک ایسا مرض ہے کہ جس کا خود مریض کو بھی تب علم ہوتا ہے کہ جب وہ مکمل ظاہر ہوتا ہے اور اس کے مکمل ظاہر ہوتے ہوتے یہ کئی دوسروں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہوتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اس کیلئے احتیاط کا بھی امکان کم ہے۔ آپ ایک سامنے سے آنے والے پتھر سے تو اپنی جان بچا سکتے ہیں مگر جب پتھر ایسی سمت سے آ رہا ہو کہ جس کا آپ تعین بھی نہ کر سکیں تو آپ کے بچاؤ کی کوئی صورت ممکن نہیں ہو سکتی۔ کورونا ایک ایسا پتھر ہے کہ جو آپ پر آرہا ہے مگر آپ کو اس کی سمت کا بھی معلوم نہیں ہے تو اس سے بچاؤ انتہائی مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود احتیاط کے یہ مرض دن بدن تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس لئے کہ ایک بظاہرایک تندرست انسان بھی اس مرض کا شکار ہو سکتا ہے مگر اس کو اس کا ادراک نہیں ہے۔ اور اس کی وجہ سے اس کے بہت سے دوست اور رشتہ دار اس سے یہ مرض حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔