مایوس کن رویہ !۔۔۔

یہ غیر متوقع صورتحال نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی انہونی ہو رہی ہے بلکہ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ناقابل تردید حصہ ہے کہ پی ڈی ایم میں موجود دو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی ضد رہی ہیں اور رہیں گی، دونوں جماعتوں کے نظریاتی کارکن تو کسی لیپا پوتی اور منافقت کے بغیر بھی اپنے جذبات ظاہر کرتے رہتے تھے، لیکن وقتی مصلحت کے تحت قائدین ایک دوسرے کی بلائیں لینے لگے تھے۔ متحدہ اپوزیشن کے اجلاسوں میں بھی باہمی احترام اور جمہوریت کےلئے قربانیاں دینے کے عزم کو ظاہر کیا جاتا رہا، مسلم لیگ (ن) کے قائد تو بوجوہ ملک سے باہر ہیں، جبکہ پی پی پی کے راہبر بیماری کے باعث سفر نہیں کر سکتے، اس لئے مشترکہ اجلاسوں میں دونوں ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوتے، جب کہ دونوں کے جانشین اپنی حاضری یقینی بناتے، انہیں اجلاسوں میں دیگر سیاسی باتوں کے علاوہ، نواز شریف اور آصف زرداری ایک دوسرے کی تعریف اور جمہوریت کےلئے قربانیوں کا ذکر ضرور کرتے، لیکن جاننے والے جانتے تھے کہ یہ آگ اور پانی کا اکٹھ مستقل نہیں ہو سکتا، جوں ہی مفادات کو ٹھیس پہنچی، سب کچھ پیچھے رہ جائے گا۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو پی ڈی ایم کی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے اور حکومت کو گرانے کےلئے،اگر اسمبلیوں سے استعفے دے کر لانگ مارچ کرنا ضروری ہو گیا تھا، تو اس کےلئے میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار کی وطن واپسی اور تحریک کی قیادت کرنے کا مطالبہ نہ تو غیر جمہوری تھا اور نہ ہی غیر سیاسی، اس مطالبے کو ن لیگ کی قیادت نے گالی سمجھا اور جوابی ردعمل بھی دیا، آصف زرداری پر کرپشن کے تمام الزامات نواز شریف کی حکومت نے ہی لگائے اور مقدمات قائم کیے تھے، ان سے قطع نظر زرداری نے برسوں جیل کاٹی، لیکن نواز شریف 1998 میں گرفتار ہوئے تو 2000 میںنکل آئے او رسعودی عرب چلے گئے جہاں 7 سال امن سے رہے اور اب ان کو سزا ہوئی تو پھر طبی بنیاد پر ضمانت لے کر لندن چلے گئے، اگر آصف زرداری نے یہ کہہ دیا کہ میاں صاحب واپس آئیں، تحریک چلائیں اور ضرورت پڑی تو سب جیل جائیں گے، تو اس میں ناراض ہونے کی بات نہیں تھی، اس پر مریم نواز نے یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے نیا بندہ ”سلیکٹ“ کر لیا ہے، اس پر اگر بلاول نے رد عمل میں یہ کہہ دیا کہ لاہور کا ایک خاندان ہمیشہ سلیکٹ ہوتا رہا تو یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ کہنے کو تو پی ڈی ایم میں دس جماعتیں شامل ہیں، لیکن ان میں سے صرف 5 ایسی ہیں جن کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے، لیکن صرف پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے، جس کی ایک صوبے میں حکومت ہے، جبکہ سینیٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت اور قومی اسمبلی میں 52 ممبران رکھتی ہے، اس لیے استعفوں پر اس کے تحفظات اور رائے کو اہمیت ملنی چاہئے تھی، یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی کی تجویز پر ضمنی انتخابات اور پھر سینٹ انتخابات میں حصہ لے کر ہی پی ڈی ایم نے اتنی کامیابیاں سمیٹی ہیں، اگر ابتدائی ایجنڈے کے مطابق بائیکاٹ کیا جاتا تو آج پی ڈی ایم رسوا ہو چکی ہوتی۔ اس لئے پارلیمنٹ میں رہ کر پارلیمانی طریقے سے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی تجویز معقول،آئینی اور جمہوری تھی، اس سے صرف ن لیگ اور جے یو آئی کو اختلاف ہے، وہ ہر صورت میں استعفے دینے کے حامی ہیں، ان کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی کی 160 نشستوں پر ضمنی الیکشن کرانا ممکن نہیں اور اس سے حکومت ختم ہو جائے گی۔ لیکن یہ واضح ہے کہ صرف استعفوں سے حکومت ختم نہیں ہوتی۔ جہاں تک لانگ مارچ کا تعلق ہے تو یہ بھی عدم استحکام پیدا کرنے کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں دے سکتا، اگر 2014 میں لانگ مارچ اور دھرنا کمزور حکومت کو نہیں گرا سکا تو اب بھی ایسا نہیں ہوگا حال ہی میں آئی ایم ایف کے مطالبے پر بجلی اور گیس کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافہ کرنے کا فیصلہ ہوا ہے، اس سے عوام کی زندگی مزید اجیرن ہونے کا احتمال ہے، لیکن پی ڈی ایم اس فیصلے کے خلاف خاموش ہے، اگر ایک لانگ مارچ اس پر ہوتا تو اس سے اپوزیشن کی عوام سے ہمدردی کا پتہ چلتا، لیکن ایسا نہیں ہوا اور لانگ مارچ بھی صرف نیب میں طلبی کے خلاف ہے۔ اپوزیشن احتجاج ضرور کرے، لیکن اس کےلئے کم از کم ان عوامی مسائل کا بہانہ بنائے، جو ہر روز غریب پر پہاڑ کی طرح نازل ہو رہے ہیں۔ جب حکومت ناکام ہو جائے تو عوام کی امیدیں اپوزیشن پر مرکوز ہوتی ہیں، اگر اپوزیشن ہی اپنی ذات تک محدود ہو جائے تو پھر عوام کہاں جائیں۔